سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(128) مرد کی عورتوں کے لئے امامت

  • 22561
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4876

سوال

(128) مرد کی عورتوں کے لئے امامت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مرد عورتوں کو جماعت کروا سکتا ہے اگر کروا سکتا ہے تو کس صورت میں یعنی امام کے پیچھے عورتوں کی صف ہو گی یا امام کے پیچھے مردوں کی ایک صف ہونا ضروری ہے پھر اس کے بعد عورتوں کی صف ہو گی۔(اشفاق بن یوسف، 36 ج ب فیصل آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرد عورتوں کی امامت کروا سکتا ہے۔ عورتیں مرد کے پیچھے صف باندھیں گی ساتھ شریک نہیں ہوں گی۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں نماز پڑھی اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمارے پیچھے نماز ادا کی۔ (احمد، نسائی)

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اور ان کی ماں یا خالہ کو نماز پڑھائی، انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپ نے مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا اور عورت کو ہمارے پیچھے کھرا کر دیا۔ (احمد، مسلم، ابوداؤد)

قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ دونوں حدیثیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جب جماعت کے امام کے ساتھ ایک آدمی اور ایک عورت ہو تو آدمی دائیں جانب اور عورت ان دونوں کے پیچھے کھڑی ہو گی۔ وہ مردوں کے ساتھ صف میں شامل نہیں ہو گی اور اس کا سبب فتنے سے ڈرنا ہے۔ (نیل الاوطار 3/204)

مذکورہ بالا احادیث سے یہ بات تو واضح ہوتی ہے کہ امام کے ساتھ کوئی مرد ہو تو عورتیں پیچھے کھڑی ہو کر نماز پڑھ سکتی ہیں۔ اب رہا صرف مرد امام ہو اور خواتین مقتدی تو کیا اس طرح نماز جائز و درست ہے۔ نواب صدیق احسن خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

عورتوں کو مرد کے پیچھے دیگر مروں کی موجودگی میں نماز پڑھنے میں کوئی نزاع نہیں ہے اختلاف اس بات پر ہے کہ صرف مرد عورتوں کو نماز پڑھائے جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح صحیح نہیں دلیل پیش کرنا اس کے ذمے ہے۔

" وليس فى صلاة النساء خلف الرجل معه الرجال نزاع و انما الخلاف فى فعليه الدليل " (الروضة الندیه 1/119)

جابر رضی اللہ عنہ کا اپنے گھر میں عورتوں کی امامت کروانا پھر اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سکوت کرنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ مرد کی اقتداء میں عورتوں کی نماز درست ہے جیسا کہ (مسند ابی یعلی 1795، 2/197، 198) بتحقیق مصطفیٰ عبدالقادر عطاء۔ علامہ ہیثمی فرماتے ہیں اس کی سند حسن ہے (مجمع الزوائد 2/77) اسی طرح صحیح البخاری وغیرہ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ذکوان کا انہیں جماعت کرانا بھی اس کا موید ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں بدایۃ المجتہد 1/107 وغیرہ

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الصلوٰۃ،صفحہ:171

محدث فتویٰ

تبصرے