السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز کے دوران اگر کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو کیا اس پر نماز چھوڑ کر وضو کرنا لازمی ہے؟ اس طرح اگر امام کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ کیا کرے؟ نماز چھوڑ کر وضو کرنا پڑے گا یا کہ وہ نماز کو پورا کرے گا؟ (محمد شریف، کھڈیاں خاص ضلع مقصود)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز کے لئے وضو کا ہونا شرط ہے۔ جب وضو ٹوٹ جائے تو نمازی کو نماز چھوڑ کر چلے جانا چاہیے اور نئے سرے سے وضو کر کے نماز ادا کرنی چاہیے اگر امام ہے تو پیچھے سے کسی آدمی کو آگے کھڑا کر کے چلا جائے اور نئے سرے سے وضو کر کے نماز ادا کرے اور یہ بھی یاد رہے کہ نماز ابتداء سے شروع کرے نہ کہ جہاں سے چھوڑی تھی۔ سیدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : (إِذَا فَسَا أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ فَلْيَنْصَرِفْ فَلْيَتَوَضَّأْ ، وَلْيُعِدْ الصَّلَاةَ)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی نماز میں اپنی ہوا خارج کرے تو واپس جا کر وضو کرے اور نماز دوبارہ پڑھے"۔ یہ حدیث حسن ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد)
علماء احناف کے ہاں یہ مسئلہ ہے کہ اگر نمازی کا وضو ٹوٹ جائے تو وہ چلا جائے اور وضو کر کے آئے اور اگر اس نے نماز کے منافی کوئی حرکت نہیں کی تو جہاں سے نماز چھوڑی تھی وہیں سے ابتداء کرے نئے سرے سے نماز ادا نہ کرے اور اس کی دلیل میں وہ یہ روایت پیش کرتے ہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جسے قے یا نکسیر یا پیٹ کا کھانا یا مذی آ جائے وہ پھر جائے، وضو کرے اور اپنی نماز پر بنا کرے بشرطیکہ اس نے اس دوران کلام نہ کیا ہو۔ (ابن ماجہ 2121، دارقطنی 1/103،100)
یہ روایت ضعیف ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بلوغ المرام میں فرمایا ہے ضبغہ احمد وغیرہ اس حدیث کو امام احمد وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ لہذا اس روایت سے استدلال درست نہیں ہے۔ صحیح بات یہی ہے کہ نئے سرے سے وضو کر کے ابتداء سے نماز پڑھی جائے کیونکہ وضو نماز کے لئے شرط ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب