السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرنے سے پہلے نیت کس طرح کرتے تھے کیا دل سے نیت کرتے تھے یا زبان سے ہی کسی قسم کے الفاظ ادا کرتے تھے بعض لوگ نماز کی نیت اپنی مادری زبان میں کرتے ہیں کیا یہ شرعا درست ہے۔(اشفاق احمد، مدنی کالونی سرگودھا روڈ جھنگ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے انما الاعمال بالنيات (متفق علیہ) تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ نیت عربی زبان کا لفظ ہے اس کا معنی فعل القلب یعنی دل کا ارادہ ہے لہذا نیت دل کے ساتھ ہی ہوتی ہے جو بھی کام کرنا ہو اس کا دلی ارادہ کر کے کر گزریں۔ زبان کے ساتھ کلمات ادا کرنے کی کوئی حاجت نہیں۔ اعمال صالحہ بے شمار ہیں سب کی قبولیت کا انحصار نیت پر ہے درست نیت کے ساتھ کئے ہوں گے تو اچھا اجر و بدلہ ملے گا اور اگر کوئی عمل بری نیت سے کیا تو اس کا انجام بھی اسی طرح کا ہو گا۔ وضو، تیمم، غسل، جنابت، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، جہاد وغیرھا جیسی بے شمار عبادات اور اعمال ہیں سب کے لئے لفظی نیت نہ بنائی ہے اور نہ ہی خود ایسا کیا ہے۔ تعجب ہے کہ لوگ نماز کے لئے تو اپنی مادری زبان میں نیت کر لیتے ہیں لیکن طہارت، وضو، غسل وغیرہ اعمال کی کوئی لفظی نیت نہیں کرتے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان کس قدر مبنی بر حقیقت ہے کہ اگر کوئی انسان سیدنا نوح علیہ السلام کی عمر کے برابر تلاش کرتا رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے زبان سے نیت کی ہو تو وہ ہرگز کامیاب نہیں ہو گیا سوائے سفید جھوٹ بولنے کے اگر اس میں خیر و بھلائی ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب سے پہلے کرتے اور ہمیں بتا کر جاتے۔ (اغاثۃ اللہفان 1/108)
شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی اپنے مکتوبات دفتر اول حصہ سوم مکتوب نمبر 186 میں لکھتے ہیں: زبان سے نیت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بروایت صحیح اور نہ بروایت ضعیف ثابت ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ زبان سے نیت نہیں کرتے تھے بلکہ جب اقامت کہتے تو صرف اللہ اکبر کہتے تھے پس زبان سے نیت بدعت ہے۔ مذکورہ بالا توضیح سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زبانی نیت ثابت نہیں بلکہ آپ کے اصحاب اور تابعین رحمہم اللہ اجمعین میں سے کسی سے بھی لفظی نیت کا کوئی ثبوت نہیں اور بہ تصریح ائمہ یہ بدعت ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب