سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(110) نماز میں خشوع و خضوع کا طریقہ

  • 22543
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 4199

سوال

(110) نماز میں خشوع و خضوع کا طریقہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری نماز میں خشوع و خضوع اور حضور قلبی نہیں ہوتا مجھے نماز میں خشوع پیدا کرنے کے لئے کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیے؟ (ابو عبدالرحمٰن سیاف، گجرات)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ بات ظاہر ہے کہ کامیاب مومن بننے کے لئے نماز میں عجز و انکساری اور خشوع و خضوع کی ضرورت ہے جیسے اللہ نے فرمایا:

"یقینا فلاح و کامیابی پائی ہے ان ایمان والوں نے جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں۔"

نماز میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کے کئی ایک ذرائع ہیں چند ایک درج ذیل ہیں۔

(1) انسان کو نماز کا معنی و مفہوم سیکھنا چاہیے کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے اور کر رہا ہے اس کو سمجھے، قراءت، دعا، ذکر و اذکار کے الفاظ و معانی پر غور کرے اور ذہن میں یہ بات ہو کہ میں عبادت کرتے ہوئے اللہ کو دیکھ رہا ہوں اور اپنے رب سے محو گفتگو ہوں جیسا کہ حدیث جبریل میں احسان کا معنی بتلایا گیا ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو اگر یہ کیفیت پیدا نہیں ہوتی تو اسے کم از کم یہ خیال ضرور رہے کہ اللہ تو مجھے دیکھ رہا ہے۔ اس طریقے سے نماز کی لذت انسان محسوس کرے گا اور نماز آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔" (مسند احمد 3/128، 199، 285 حاکم 2/160)

لہذا فقہ الصلوٰۃ سے آدمی کو باخبر رہنا چاہیے۔

(2) ایسی سوچ و بچار کو دور کرنے کی کوشش کرے جو نماز میں آڑے آتی ہے وساوس شیطانی کو دفع کرے تاکہ شہوات نفسانی سے دل نکل کر اللہ کی محبت میں اٹک جائے۔

(3) نماز پُرسکون طریقے سے ادا کرے جلد بازی سے کام نہ لے جب تک نماز میں سکون و اطمینان نہ ہو نماز ادا نہیں ہوتی جیسا کہ حدیث میں جو نماز میں رکوع و سجدہ صحیح ادا نہیں کرتا اسے نماز کا چور قرار دیا گیا ہے۔ (حاکم 1/229، مسند احمد 5/310) ایک حدیث میں رکوع و سجدہ میں ٹھونگے مارنے والے کو اس بھوکے آدمی کی طرح قرار دیا گیا ہے جو ایک یا دو کھجوریں کھاتا ہے اور یہ اسے کچھ فائدہ نہیں دیتیں۔

(صحیح ابن خزیمہ 1/332 طبرانی کبیر 4/115)

(4) نماز کے اندر موت کو یاد کرے جب موت یاد آئے گی تو نماز عمدہ طریقے سے ادا کرے گا اور یہ یقین کر کے نماز پڑھے کہ اسے شاید اگلی نماز پڑھنے کا موقعہ نہ ملے جیسا کہ مسند احمد، ابن ماجہ، المعجم لابن الاعرابی میں حدیث ہے اور شیخ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

(5) نماز کی دعائیں اور اذکار زیادہ سے زیادہ یاد کرے اور مختلف نماز میں مختلف دعائیں اور اذکار جو احادیث صحیحہ میں وارد ہیں پڑھے کیونکہ ایک مختصر سی دعا جو یاد کی ہوتی ہے وہ آدمی کی عادت اور روٹین میں آ جاتی ہے پھر اس کی زبان پر ورد تو جاری ہوتا ہے لیکن دل فکر سے خالی ہوتا ہے یعنی ہماری نماز بطور عادت ہوتی ہے عبادت نہیں جب نماز کے اذکار مختلف یاد ہوں گے اور بدل بدل کر پڑھے گا تو نماز میں دھیان اور توجہ رہے گی اور خشوع و خضوع حاصل ہو گا۔ نماز کے اذکار کے لئے راقم کی کتاب صلاۃ المسلم یا حصن المسلم وغیرہ کا مطالعہ کریں۔

(6) اگر نماز میں وسوسہ آ جائے تو اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوک کر اعوذ باللہ پڑھ لیں۔ (صحیح مسلم 2203۔ احمد 4/216) اس طرح شیطان جو نماز کو بھلا دیتا ہے اس کا ازالہ ہو جائے گا۔ ان شاءاللہ

(7) جس جگہ نماز ادا کرے نقش و نگار، تصاویر وغیرہ نہ ہوں۔

(صحیح البخاری 367۔ صحیح مسلم 2107)

کیونکہ یہ اشیاء نماز سے توجہ ہٹا دیتی ہیں۔

(8) اچھے لوگوں کی صحبت اختیار کریں تاکہ نیکی کی رغبت ہو اور برے لوگوں کی صحبت سے اجتناب کریں۔

(9) اگر حاجت تنگ کر رہی ہے تو پہلے حاجت کو جائے پھر نماز ادا کرے۔ پیشاب یا پاخانہ روک کر نماز پڑھنا درست نہیں۔ (ابن ماجہ 617)

(10) نیند کا غلبہ ہو تو پہلے نیند پوری کر لے پھر نماز پڑھے (صحیح بخاری 209 صحیح مسلم 786)

(11) گفتگو کرنے والے آدمی کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھے۔ (ابوداؤد 694، حاکم 4/270)

کیونکہ اس کی گفتگو بھی نماز سے غافل کرنے کا باعث ہو سکتی ہے۔

(12) دوران نماز نظر ادھر ادھر نہ گھمائے۔ (ابوداؤد 909)

(13) اسی طرح کبھی رات کا قیام کیا کرے اور اگر ممکن ہو تو معمول بنا لیں اس سے بھی خشیت الٰہی نصیب ہوتی ہے اگر مذکورہ بالا امور پر توجہ دی جائے تو اللہ کے فضل و کرم سے نماز میں خشوع و خضوع نصیب ہو جاتا ہے اللہ ہمیں ایسا نمازی بنائے کہ ہم اس کی بندگی صحیح نہج پر کر سکیں اور شیطانی وساوس اور عجز و انکساری سے دور کرنے والے ذرائع سے اللہ محفوظ فرمائے۔ آمین

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الصلوٰۃ،صفحہ:156

محدث فتویٰ

تبصرے