سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(59) داڑھی کے متعلق عبداللہ بن عمر ﷜ کی حدیث

  • 22492
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 5387

سوال

(59) داڑھی کے متعلق عبداللہ بن عمر ﷜ کی حدیث

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

داڑھی کے متعلق مختلف لوگوں کا نظریہ مختلف ہے کوئی کچھ کہتا ہے تو کوئی کچھ، پچھلے دنوں بخاری شریف کا مطالعہ کر رہا تھا (ترجمہ و تفسیر علامہ وحید الزماں) ایک حدیث نظر سے گزری جس کا ترجمہ کچھ یوں تھا۔

ہم سے محمد بن منہال نے بیان کیا کہا ہم سے یزید بن زریع نے کہا ہم سے عمر بن زید نے انہوں نے نافع سے انہوں نے ابن عمر سے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے فرمایا مشرکین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے داڑھیاں چھوڑ دو اور مونچھوں کو خوب کتر ڈالو اور عبداللہ بن عمر جب حج یا عمرہ کرتے تو اپنی داڑھی کو مٹھی سے تھامتے جتنی زیادہ ہوتی اس کو کتروا دیتے تھے۔(حدیث نمبر 368، باب ناخنوں کے کترنے کا بیان)

اس حدیث مبارکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کی خلاف ورزی کرنے کا حکم دیا ہے اور کہا ہے کہ داڑھیاں بڑھاؤ لیکن یہ نہیں بتایا کہ کتنی بڑھاؤ آیا شروع سے ہی رکھنی چاہیے یا کاٹی جا سکتی ہے؟ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے فعل کا ذکر ہے کہ وہ جب حج یا عمرہ کرتے تو مٹھی بھر سے زائد داڑھی کٹوا دیتے تھے۔ کیا ان کا یہ فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے خلاف تھا یا کوئی اور بات تھی اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے یہ عمل ایک سے زائد مرتبہ کیا ہے۔ بعض لوگ داڑھی کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر رکھ لی جائے تو ثواب ہے اور اگر نہ رکھی جائے تو کوئی گناہ نہیں ہے۔ کیا مشرک بھی داڑھی رکھتے تھے آج کل جو کافر ہیں وہ تو داڑھی نہیں رکھتے۔ تو اگر تراشیدہ داڑھی رکھ لی جائے تو کس قدر گناہ ہوتا ہے۔ اسلام میں "خط" کا کوئی تصور موجود ہے یا نہیں اور داڑھی فرض ہے یا سنت اور اگر سنت ہے تو کیسی سنت اور جو لوگ داڑھیاں نہیں رکھتے اسلام نے ان کے متعلق کیا وعید سنائی ہے۔ اہل سنت داڑھی کو مٹھی سے بڑھانا مکروہ اور اہل شیعہ حرام قرار دیتے ہیں آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے۔ (محمد اظہر منظور، ہاؤسنگ کالونی گوجرہ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

داڑھی رکھنے کے متعلق بخاری شریف کی حدیث صریح نص ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کو بڑھانے کا حکم دیا ہے اور آپ نے خود داڑھی بڑھائی اور داڑھی کا کاٹنا یا منڈانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کے علاوہ بھی کئی ایک احادیث داڑھی بڑھانے اور اسے معاف کرنے پر دلالت کرتی ہیں احادیث میں داڑھی کے متعلق  واعفوا، أوفوا، وفروا، أرجوا، أرخوا پانچ طرح کے الفاظ ملتے ہیں جنہیں امام نووی نے مسلم کی شرح میں اور قاضی شوکانی نے نیل الاوطار میں ذکر کیا ہے۔ ان الفاظ کا تقاضا یہی ہے کہ داڑھی کو اول روز سے رکھ لینا چاہیے اسے کانٹ چھانٹ اور منڈانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ صحابی رسول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا ذاتی عمل کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ حدیث مرفوع کے مقابل اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ مذکورہ الفاظ حدیث امر کے صیغے ہیں اور امر لغت عرب میں وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ اسلام میں داڑھی رکھنا واجب ہے۔ اس کے خط بنوانے کی کوئی دلیل شرعی موجود نہیں اہل تشیع کے ہاں داڑھی تراشنا حرام ہے جیسا کہ علامہ محمد حسین نجفی نے اپنی کتاب "حرمت ریش تراشی" میں بادلائل واضح کیا ہے اور کئی ایک ائمہ اہل سنت کے ہاں داڑھی ایک مشت ہونی چاہیے اور وہ آثار صحابہ سے دلیل لاتے ہیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ حدیث نبوی کے مقابلے میں اثر صحابی کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ لہذا بہتر موقف یہی ہے کہ داڑھی بڑھائی جائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود داڑھی بڑھائی بھی ہے اور بڑھانے کا حکم بھی دیا ہے اور اس کی کوئی حد مقرر نہیں کی۔

لہذا ہمیں بھی اس کی حد بندی سے اجتناب کرنا چاہیے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب الطہارۃ،صفحہ:99

محدث فتویٰ

تبصرے