سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(58) احادیث سترہ کی وضاحت

  • 22491
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 3022

سوال

(58) احادیث سترہ کی وضاحت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

احادیث سترہ کے بارے میں ساتھیوں میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے، براہ کرم سترہ کے واجب یا مستحب ہونے کے بارے کتاب و سنت سے دلائل دیتے ہوئے وضاحت فرمائیں اور اس حدیث کے بارے میں تفصیلا وضاحت فرمائیں " لا تُصَلِّ إِلا إِلَى سُتْرَةٍ " نیز حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بھی وضاحت فرمائیں کہ صحیح بخاری میں (الی غیر جدار) سے کیا مراد ہے کہ یہ سترہ کے وجوب کو ساقط کرتی ہے۔ (گلزار احمد سلفی، بھکر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ میں سترے کے بغیر نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لا تصل إلا إلى سترة ، ولا تدع أحدا يمر بين يديك ، فإن أبى فلتقاتله؛ فإن معه القرين) (صحیح ابن خزیمه 2/10، 17 صحیح ابن حبان 6/126، 127 رقم 2362)

"سترے کے بغیر نماز نہ پڑھو اور کسی کو اپنے آگے سے گزرنے نہ دو وہ (گزرنے والا) انکار کرے تو اس سے لڑائی کرو یقینا اس کے ساتھ شیطان ہے۔"

یہ حدیث صحیح مسلم کی شرط پر صحیح ہے اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ إِلَى سُتْرَةٍ فَلْيَدْنُ مِنْهَا ، لَا يَقْطَعْ الشَّيْطَانُ عَلَيْهِ صَلَاتَهُ) (صحیح ابن خزیمه 2/10 مسند احمد 4/2)

"جب بھی تم میں سے کوئی نماز ادا کرے تو وہ سترہ کی طرف نماز ادا کرے اور اس کے قریب ہو کر کھڑا ہو۔ اس پر شیطان اس کی نماز کو نہیں توڑے گا۔"

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

(اذا صلى احدكم فليستره) (شرح السنته 2/447)

"جب بھی تم میں سے کوئی نماز ادا کرے تو سترہ رکھے۔"

ان احادیث صحیحہ مرفوعہ سے معلوم ہوا کہ ہمیں نماز ادا کرتے وقت یہ حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنے آگے سترہ رکھیں اور حکم وجوب کے لئے ہوتا ہے الا یہ کہ کوئی قرینہ صارفہ عن الوجوب ہو یعنی کوئی اور ایسی صحیح دلیل مل جائے جو اس حکم کو وجوب سے نکال دے۔ صحیح البخاری کتاب العلم 76 وغیرہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں جو آیا ہے کہ

(وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يُصَلِّى بِمِنًى إِلَى غَيْرِ جِدَارٍ)

کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں دیوار کے بغیر نماز پڑھ رہے تھے اس کے مفہوم میں اہل علم کے ہاں اختلاف ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں غیر جدار سے مراد غیر سترہ ہے یہ بات امام شافعی نے کہی ہے اور سیاق کلام اس پر دلالت کرتا ہے اس لئے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے اسے معرض الاستدلال میں وارد کیا ہے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا اس کی نماز کو نہیں توڑتا، اور مسند بزار کی روایت اس کی تائید کرتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:

(والنبي صلى الله عليه وسلم يصلي المكتوبة ليس لشئ يستره)

"اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز ادا کر رہے تھے آپ کے آگے کوئی ایسی چیز نہ تھی جو آپ کا سترہ بنتی۔" (فتح الباری 1/571)

بعض متاخرین عطاء وغیرہ نے کہا ہے غیر جدار سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی کہ دیوار کے علاوہ بھی کوئی چیز نہ تھی، لیکن اس قول پر یہ مواخذہ کیا گیا ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا اپنے گزرنے کے بارے میں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے انکار کرنے کے بارے میں خبر دینا اس بات کی علامت ہے کہ کوئی ایسا معاملہ پیش آیا جو پہلے نہ ہوتا تھا اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ وہاں دیوار کے علاوہ کوئی سترہ تھا تو یہ خبر دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔ سترہ ہونے کی صورت میں گزرنے پر کوئی بھی انکار نہ کرتا۔ انکار تبھی ہوتا جب سترہ نہ ہوتا۔ شارح بخاری ابو الحسن علی بن خلف المعروف ابن بطال فرماتے ہیں اس حدیث میں دلیل ہے کہ امام کے لئے جائز ہے کہ وہ سترہ کے بغیر نماز پڑھے۔ (شرح صحیح البخاری 1/162)

صحیح البخاری کی حدیث کا مفہوم متعین کرنے کے لئے حافظ ابن حجر عسقلانی نے جو مسند بزار کی روایت تائید میں پیش کی ہے کہ غَيْرِ جِدَارٍ سے مراد سترہ نہ تھا۔ مسند بزار فی الحال 9 جلدوں میں طبع ہو کر آئی ہے ابھی یہ مسند ناقص ہے باقی جلدیں ابھی طبع نہیں ہوئیں۔ مطبوعہ جلدوں میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی مسند نہیں ہے البتہ ابن بطال نے شرح صحیح البخاری 2/129 میں اس کی سند ذکر کی ہے جو بشر بن آدم کی وجہ سے حسن معلوم ہوتی ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ سترے کے وجوب کا حکم لگانا مشکل ہے البتہ افضل اور مستحسن و مسنون ضرور ہے واللہ اعلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد و غیر مسجد میں اس کا اہتمام کرتے تھے اگر کسی موقع پر سترہ نہ رکھا گیا ہو تو نماز ہو جائے گی۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب العقائد والتاریخ،صفحہ:94

محدث فتویٰ

تبصرے