سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42) ایک روایت کی تحقیق

  • 22475
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1072

سوال

(42) ایک روایت کی تحقیق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محترم ایک روایت کی تحقیق مطلوب ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں مجھے اس بات کی خبر دیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا کیا تو آپ نے فرمایا اے جابر! اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا کیا پھر یہ نور اللہ کی قدرت سے جہاں چاہا گھومتا رہا۔ الخ ۔۔۔ (عبدالرزاق) اس کی مفصل تحقیق چاہیے۔ (محمد جاوید کوڑے شاہ زیریں تحصیل و ضلع ساہیوال)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

محدثین کرام رحمہم اللہ اجمعین نے بڑی محنت اور جانفشانی سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کو بالاسانید جمع کیا اور اس بات کی مکمل کوشش کی کہ کوئی ایسی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہو جو آپ نے نہیں کہی۔ کیونکہ آپ کا ارشاد گرامی ہے:

(من كذب علي متعمدا فليتبوأ مقعده من النار) (الحدیث)

"جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔"

اور ایک روایت میں ہے:

(من قال علي ما لم أقل فليتبوأ مقعده من النار)

"جس نے مجھ پر وہ بات کہی جو میں نے نہیں کہی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے۔"

اس لئے جو شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بات منسوب کر کے بیان کرتا ہے اس کے لئے سند کی شرط لگائی گئی پھر سند کی صحت کے لئے بھی کڑی شرائط کو مدنظر رکھا گیا اور جس روایت کی کوئی سند نہ ہوتی اسے کسی صورت بھی قبول نہ کیا جاتا۔ امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

(الإسناد عندي من الدين ولولا الإسناد لقال من شاء ما شاء ، فإذا قيل له من حدثك ؟ بقي) (تاریخ بغداد 6/166۔ مقدمه صحیح مسلم، معرفه علوم الحدیث للحاکم ص 6)

"اسناد میرے نزدیک دین میں سے ہے اور اگر اسناد نہ ہوتی تو ہر کوئی جو چاہتا کہہ دیتا لیکن جب اسے کہا جائے تجھے یہ حدیث کس نے بیان کی ہے تو وہ ساکت ہو جاتا۔"

عبداللہ شاگرد ابن مبارک رحمہما اللہ فرماتے ہیں، عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات زنادقہ اور روایات گھڑنے والوں کے ذکر کے وقت کہی۔ امام زہری رحمۃ اللہ علیہ نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ ضعیف و متروک راوی سے کہا:

(قاتلك الله ، يا ابن أبي فروة ، ما أجرأك على الله ، ما تسند حديثك . تحدثنا بأحاديث ، ليس لها خطم ولا أزمة) (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم ص 6، ط جدید ص 42)

"اے ابن ابی فروہ! اللہ تجھے ہلاک کرے تو اللہ تعالیٰ پر کس قدر جراءت کرنے والا ہے۔ تو اپنی روایت کی سند بیان نہیں کرتا۔ تو ہمیں ایسی روایتیں بیان کرتا ہے جن کی نکیلیں اور مہاریں نہیں ہیں۔'

یعنی جس طرح جانور کو باندھنے اور چلانے کے لئے نکیل اور مہار کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روایات کی حفاظت اور صحت کے لئے اسانید کی حاجت ہوتی ہے اور تم بغیر اسانید کے روایات بیان کرتے ہو۔ الغرض محدثین بغیر سند کے بیان کرنے والوں کو بددعا دیتے اور سمجھتے تھے کہ روایت کے درست ہونے کے لئے سند کا صحیح ہونا بھی ضروری ہے۔ مذکورہ بالا روایت جابر رضی اللہ عنہ کو کئی سیرت نگاروں نے بغیر سند کے درج کر دیا ہے اور بعض نے اسے امام عبدالرزاق کی طرف منسوب کیا ہے ہمارے پاس امام عبدالرزاق کی المصنف گیارہ ضخیم جلدوں میں اور تفسیر عبدالرزاق تین جلدوں میں مطبوعہ موجود ہے لیکن یہ روایت اس میں ہمیں نہیں ملی۔ جو شخص اس روایت کی صحت کا مدعی ہے وہ محدثین رحمۃ اللہ علیہم کے قواعد کے مطابق اس کی ایک صحیح سند پیش کرے۔ آج تلک کوئی شخص بھی اس کی ایک صحیح سند پیش نہیں کر سکا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح کی غلط بیانی جھوٹی روایات اور عقائد فاسدہ سے محفوظ فرمائے اور سلف صالحین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، تابعین عظام اور ائمہ محدثین رحمہم اللہ اجمعین کے نقش قدم پر چلائے۔ آمین

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب العقائد والتاریخ،صفحہ:77

محدث فتویٰ

تبصرے