سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(40) لفظ سید کی توضیح

  • 22473
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1362

سوال

(40) لفظ سید کی توضیح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سید کسے کہتے ہیں کیا سید کوئی ذات ہے؟ صحیح العقیدہ مومن موحد قرآن و سنت کا پابند بھی ہو سکتا ہے؟ کیونکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کے نام کے ساتھ سیدنا لکھا جاتا ہے؟ وضاحت فرمائیں۔ (ابو علی عسکری)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

موجودہ دور میں لفظ سید ایک مخصوص ذات کے لئے لوگ استعمال کرتے ہیں حالانکہ سید کوئی ذات نہیں ہے بلکہ کتاب و سنت کی رو سے شرافت و بزرگی اور سرداری کے لئے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کلمات استغفار پر " اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِي " (الحدیث) کو فضیلت دیتے ہوئے اسے سید الاستغفار قرار دیا ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الدعوات، باب افضل الاستغفار 6302)

جمعۃ المبارک کے بارے میں آپ نے فرمایا:

(سَيِّدُ الأَيَّامِ يَوْمُ الْجُمُعَةِ ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ ، وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا ، وَلاَ تَقُومُ السَّاعَةُ إِلاَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ)(المستدرك 1/277، صحیح ابن خزیمه 3/115)

تمام دنوں کا سردار جمعہ والا دن ہے، اسی میں آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن جنت میں داخل کئے گئے اور اس دن ہی جنت سے نکالے گئے اور قیامت بھی اسی دن قائم ہو گی۔

حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو آپ نے "سید الشہداء" فرمایا۔

(المستدرک 2/120، 3/195۔ فتح الباری 7/368۔ سلسلہ احادیث صحیحہ 374)

ان احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سید کا لفظ سرداری، شرافت و بزرگی ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ صحیح البخاری وغیرہ میں ہے حسن رضی اللہ عنہ کے لئے آپ نے فرمایا: " إن ابني هذا سيد " میرا یہ بیٹا سردار ہے اور صحیح البخاری، کتاب الانبیاء (3340) میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " قیامت والے دن میں سب انسانوں کا سردار ہوں گا۔

الغرض بے شمار احادیث صحیحہ میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے لیکن کہیں بھی یہ کسی مخصوص ذات پر نہیں بولا گیا ہر مومن موحد اپنے اپنے مقام پر بزرگ و سید ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب العقائد والتاریخ،صفحہ:73

محدث فتویٰ

تبصرے