سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(39) سچی توبہ کی حیثیت

  • 22472
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 659

سوال

(39) سچی توبہ کی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی جوان لڑکا کسی جوان لڑکی کے بہکاوے میں آ جائے اور وہ زنا کر بیٹھے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ کام اسلام میں جائز نہیں مگر پھر بھی شیطان کے بہکاوے میں آ جائے اور غلطی کا احساس ہونے پر سچے دل سے توبہ کر لے اور آئندہ ایسی غلطی کبھی نہ کرے تو کیا اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا۔ (کامران اشرف، فورٹ عباس)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب کوئی شخص شیطان کے بہکاوے میں آ کر کسی گناہ کا ارتکاب کر لیتا ہے پھر سچے دل سے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"اے ایمان والو! اللہ کی طرف صاف دل سے توبہ کر لو۔" (تحریم)

ایک مقام پر فرمایا:

"اے ایمان والو! سب اللہ کے آگے توبہ کر لو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔" (نور)

بخاری و مسلم میں سو بندوں کے قاتل کا قصہ ہے بالآخر جب اس قاتل نے سچے دل سے توبہ کا ارادہ کر لیا ایک عالم کے بتانے پر وہ ایک بستی کی طرف روانہ ہوا جہاں لوگ اللہ کی بندگی کرنے والے تھے اسے راستے میں موت آ گئی پھر اسے رحمت کے فرشتے لے گئے۔

اسی طرح ایک عورت نے زنا کر لیا پھر نادم ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی حد لگانے کا مطالبہ کیا بالآخر اسے رجم کیا گیا پھر آپ نے اس کا جنازہ پڑھا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس زانیہ کا جنازہ پڑھ رہے ہیں آپ نے فرمایا: اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر وہ مدینے کے ستر بندوں پر تقسیم کی جائے تو سب کو کافی ہو جائے۔ (مسلم وغیرہ)

بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ جو شخص توبہ کرتا ہے اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔

(1) خالص اور سچی توبہ وہ ہوتی ہے کہ جس میں گناہ کرنے والا گناہ سے باز آ جائے۔

(2) گناہ پر نادم ہو۔

(3) پختہ عزم کرے کہ پھر وہ اس گناہ میں مبتلا نہ ہو گا۔

جیسا کہ ریاض الصالحین باب التوبہ میں مذکور ہے: لہذا جو شخص اپنے گناہ پر شرمندہ ہو کر اسے چھوڑ دیتا ہے اور آئندہ پختہ ارادہ کر لیتا ہے کہ وہ یہ گناہ نہیں کرے گا تو اللہ ایسے بندے کی توبہ قبول کرتا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب العقائد والتاریخ،صفحہ:72

محدث فتویٰ

تبصرے