سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(36) حدیث کی وضاحت

  • 22469
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2601

سوال

(36) حدیث کی وضاحت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ترمذی میں ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خطبہ دیا اور کہا " من يطع الله ورسوله فقد رشد ومن يعصهما فقد غوى " جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ ہدایت پا گیا اور جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہو گیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "‏بئس الخطيب أنت قل ومن يعص الله ورسوله " تو کتنا برا خطیب ہے کہہ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ نیز اس ممانعت کی وجہ کیا ہے۔ (ایک سائل، ضلع گجرات)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

یہ حدیث (صحیح مسلم، کتاب الجمعۃ، باب تخفی الصلاۃ والخطبہ 850۔ نسائی، کتاب النکاح، باب ما یکرہ من الخطبہ 3259۔ ابوداؤد، کتاب الصلاۃ، باب الرجل یخطب علی قوس 1099۔ کتاب الادب 4981۔ مسند احمد 4/251، 359۔ بیہقی 1/86، 3/212۔ مستدرک حاکم 1/289 وغیرھا) میں مطول و مختصر مروی ہے۔ ترمذی شریف میں مجھے یہ روایت نہیں ملی اس روایت میں جو " من يعصهما فقد غوى " جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوا کے الفاظ پر آپ نے کہنے والے کو جو کہا تو برا خطیب ہے۔ اس کی شارحین حدیث کئی وجوہات بیان کرتے ہیں بعض نے کہا کہ اس لئے آپ نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو ایک ضمیر میں جمع کر دیا۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سکھایا اس میں مذکور ہے کہ " من يطع الله ورسوله فقد رشد ، ومن يعصهما فإنه لا يضر إلا نفسه " (ابوداؤد، کتاب النکاح 2119)

اور انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی ہے " من يعصهما فقد غوى "

اس طرح قرآن حکیم میں بھی ہے کہ

﴿إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ

اس آیت میں يُصَلُّونَ کی ضمیر میں اللہ اور ملائکہ کو جمع کیا گیا ہے۔

امام نووی فرماتے ہیں کہ درست بات یہ ہے کہ منع اس لئے کیا گیا ہے کہ خطبوں کی شان یہ ہے کہ ان میں تفصیل اور وضاحت ہو اور اشارات و رموز سے اجتناب ہو اسی لئے صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بات کرتے تو اسے تین بار دھراتے تاکہ اسے سمجھا جا سکے۔ (شرح النووی 6/139 ط بیروت)

مزید تفصیل کے لئے حاشیہ سیوطی علی النسائی وغیرہ ملاحظہ کریں۔

خطیب کو چاہیے کہ وہ اشارات و رموز سے کام نہ لے سامعین کو کسی قسم کا ابہام نہ رہے۔ ایک ضمیر میں اللہ اور اس کے رسول کو جمع کرنے سے عامۃ الناس میں شبہ ہو سکتا ہے کہ کہیں اللہ کے ساتھ رسول بھی شریک ہیں۔ اس لئے بات کھول کر تفصیل سے عوام الناس کے سامنے بیان کر دینی چاہیے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب العقائد والتاریخ،صفحہ:68

محدث فتویٰ

تبصرے