سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(19) شعبان کی نصف رات کے اعمال کی حیثیت

  • 22452
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 773

سوال

(19) شعبان کی نصف رات کے اعمال کی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

شعبان کی نصف رات کو بعض لوگ صلاة البراة یا صلاة الالفيه ادا کرتے ہیں بعض 1000 رکعات نماز اور ہر رکعت میں 10 بار قل ھو اللہ پڑھتے ہیں اس طرح ایک ہزار مرتبہ قل ھو اللہ پڑھی جای ہے کیا ایسا عمل کسی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صلاة البراة یا صلاة الالفيه بدعت ہے اس کا ثبوت کسی بھی صحیح روایت میں موجود نہیں علامہ طاہر پٹنی ہندی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں کہ شعبان کی نصف رات کو جو نماز الفیہ ادا کی جاتی ہے یہ بدعات میں سے ہے جس میں سو رکعات میں سے ہر رکعت میں 10 بار قل ھو اللہ پڑھی جاتی ہے اور لوگوں نے عیدوں سے زیادہ اس کا اہتمام کیا ہے۔ اس کے متعلق اخبار و آثار و ضعیف یا موضوع ہیں امام غزالی نے اور احیاء العلوم وغیرہ میں جو اس کا ذکر کیا ہے اس سے دھوکہ نہ کھایا جائے اور نہ ہی تفسیر شعبی سے دھوکہ کھایا جائے کہ شب قدر لیلۃ القدر ہے۔ اس نماز کی وجہ سے عوام ایک ظلم فتنے میں مبتلا ہو گئی ہے۔ حتی کہ اس کے سبب وہ چراغاں کثرت سے کرتے ہیں اور اس پر فسق و فجور اور عفت و عصمت دری کا ترتب ہوتا ہے جس کا ذکر ناقابل بیان ہے۔ یہ نماز سب سے پہلے بیت المقدس میں 448ھ میں ایجاد کی گئی ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تذکرۃ الموضوعات ص 45،46 لہذا ایسی کوئی نماز شریعت سے ثابت نہیں جس میں 1000 بار سورۃ اخلاص تلاوت کی جائے اور اسے صلاۃ البراءۃ کا نام دیا جائے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

تفہیمِ دین

کتاب العقائد والتاریخ،صفحہ:51

محدث فتویٰ

تبصرے