السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا شعبان کی 15 ویں رات کے بارے میں کوئی صحیح روایت فضیلت میں موجود ہے جسے شب برات کا نام دیا جاتا ہے۔ بعض لوگ سورۃ دخان کی ابتدائی آیات شب برات کے بارے میں بتاتے ہیں اس کی کیا حقیقت ہے۔ (علی رضا خان، لاہور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۃ دخان کے ابتداء میں جو فرمایا ہے "بےشک ہم نے اس قرآن کو برکت والی رات میں نازل کیا کیونکہ ہم لوگوں کو ڈرانے والے ہیں یہ وہ رات ہے جس میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔
اس آیت میں لیلۃ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے جس کی تفسیر خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن حکیم میں کر دی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"بلاشبہ ہم نے اس قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا"۔
سورۃ دخان میں جس رات کو مبارک قرار دیا ہے اسے ہی سورۃ القدر میں لیلۃ القدر فرمایا ہے۔ رمضان المبارک کے بارے میں ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا"
قرآنی آیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کا نزول رمضان کے مہینہ میں ہوا اور اس ماہ مبارک کی بابرکت اور قدر والی رات میں جن لوگوں نے لیلۃ مبارکہ کو شعبان کی نصف رات قرار دیا ہے ان کی بات درست نہیں۔ ملاحظہ ہو تفسیر ابن کثیر 4/145 رہا اس رات کی تخصیص کے بارے میں روایات تو یاد رہے کہ اس کے متعلق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں۔
امام عقیلی فرماتے ہیں: (الضعفاء 3/29) نصف شعبان کی رات میں اللہ تعالیٰ کے نزول کے بارے میں جتنی روایات مروی ہیں سب کمزور ہیں اور یہی بات حافظ ابو الخطاب ابن دحیہ نے کہی ہے ملاحظہ ہو: "الباعث علی انکار البدع والحوادث ص 52" البتہ عمومی طور پر ہر رات آسمان دنیا پر نزول باری تعالیٰ کے متعلق صحیح احادیث موجود ہیں۔ شعبان کی تخصیص کے ساتھ نہیں۔ "البدع والنہی عنہا" میں لکھا ہے کہ میں نے مشائخ اور فقہاء میں سے کسی کو بھی نصف شعبان کی رات کی طرف التفات کرتے ہوئے نہیں پایا اور مکحول کی روایت ذکر کرتے ہوئے بھی کسی کو نہیں پایا اور دیگر راتوں کے علاوہ اس کی فضیلت کا بھی قائل کوئی نہیں اسی طرح (البدع والنہی 113) میں صحیح سند کے ساتھ ابی ملیکہ النمیری سے نقل کرتے ہیں کہ انہیں کہا گیا قاضی زیاد النمیری کہتا ہے "نصف شعبان کی رات کا اجر شب قدر کے اجر کی طرح ہے تو فرمانے لگے اگر یہ بات میں اس سے سن لیتا اور میرے ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تو اس سے اس کی پٹائی کر دیتا، ابن رجب فرماتے ہیں "اکثر علمائے حجاز نے اس کا انکار کیا ہے جن میں سے عطاء بن ابی رباح اور ابن ابی ملیکہ ہیں۔ عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم نے فقہائے مدینہ سے یہ بات نقل کی ہے اور اصحاب مالک وغیرہ کا یہی قول ہے۔ انہوں نے کہا کہ " ذلك كله بدعة " یہ سارا عمل بدعت ہے۔"
مذکورہ توضیح سے معلوم ہوا کہ سلف صالحین ائمہ حجاز کے ہاں شب برات کا کوئی تصور نہ تھا اصل میں قدر و برکت والی رات لیلۃ القدر ہے جس میں قرآن حکیم کا نزول ہوا اور شب قدر کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوتے اور اپنے گھر والوں کو بھی بیدار کرتے جیسا کہ احادیث صحیحہ میں موجود ہے شعبان کے مہینہ میں 15 ویں رات کی خاص فضیلت کسی صحیح حدیث میں وارد نہیں ہوئی اس کے متعلق جتنی روایات مروی ہیں بعض موضوع و من گھڑت قصے ہیں اور بعض ضعیف اور ناقابل احتجاج ہیں۔ ان روایات کی مفصل تحقیق راقم کے قلم سے مجلۃ الدعوۃ میں پہلے چھپ چکی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب