سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(346) بیوی کا مال اور حق مہر

  • 22412
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 741

سوال

(346) بیوی کا مال اور حق مہر

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا خاوند کے  لیے  بیوی کی رضا مندی سے اس کا مال لینا اور اسے اپنے مال میں ضم کرنا جائز ہے یا ان کی اولاد کی رضامندی بھی ضروری ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اس میں تو کوئی شک نہیں کہ بیوی اپنے مہر اور مملوکہ مال کی حقدار ہے۔ وہ مال اس کا کمایا ہوا ہو، اس کے نام ہبہ شدہ ہو یا اسے وراثت میں ملا ہو، بہرحال وہ اس کا مال ہے اور اس کی ملکیت ہے وہ اس میں مکمل تصرف کا حق رکھتی ہے۔ اگر عورت اپنے کل مال یا اس کے ایک حصے پر خاوند کا تصرف قبول کر لے تو اس کے  لیے  ایسا کرنے کی اجازت ہے۔ اس طرح وہ مال اس کے خاوند کے  لیے  حلال ہو گا۔

جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ۚ فَإِن طِبْنَ لَكُمْ عَن شَيْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَّرِيئًا ﴿٤﴾ (النساء 4؍4)

’’ اور تم بیویوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دے دیا کرو اگر وہ خوش دلی سے تمہارے  لیے  اس کا کوئی حصہ چھوڑ دیں تو اسے مزے دار اور خوشگوار سمجھ کر کھاؤ ۔‘‘

اس میں شرط یہ ہے کہ عورت خوش دلی سے ایسا کرے۔ اگر عورت عاقلہ اور رشیدہ ہے تو اس کی اجازت کے بعد اولاد یا کسی اور سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ لیکن بیوی کے  لیے  یہ جائز نہیں کہ وہ اس کو ناز و نخرہ اور مدح سرائی کا سبب بنائے یا خاوند پر احسان جتلائے، اسی طرح خاوند کو بھی نہیں چاہیے کہ وہ عورت کے انکار کی صورت میں اس سے بدسلوکی کرے، اسے تنگ کرے یا کسی طرح کا کوئی نقصان پہنچائے، کیونکہ وہ اپنے حق کی زیادہ حقدار ہے۔ واللہ اعلم ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

مختلف فتاویٰ جات،صفحہ:360

محدث فتویٰ

تبصرے