سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(319) بیوی کا خاوند کے علم کے بغیر اس کے مال سے کچھ لینا

  • 22385
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 813

سوال

(319) بیوی کا خاوند کے علم کے بغیر اس کے مال سے کچھ لینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اس بیوی کے متعلق کیا حکم ہے جو خاوند کو بتائے بغیر اس کے مال سے کچھ لیتی رہتی ہو اور اپنی اولاد پر خرچ کرتی رہتی ہو اور خاوند کے سامنے قسم اٹھائے کہ اس نے اس کے مال سے کچھ بھی نہیں لیا۔ اس عمل کا کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بیوی کے  لیے  خاوند کی اجازت کے بغیر اس کا مال لینا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ایک دوسرے کا مال ہتھیانے سے منع فرمایا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر اعلان کرتے ہوئے یوں فرمایا:

(فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، وَبَلَدِكُمْ هَذَا، وَشَهْرِكُمْ هَذَا،... ألا يا أمتاه! هل بلغت؟) (رواہ ابن ماجۃ فی کتاب المناسک باب 76)

’’ تمہارے خون، تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں جیسا کہ تمہارے اس دن (عرفہ) کی حرمت تمہارے اس مہینے (ذی الحجہ) میں تمہارے اس شہر (مکہ مکرمہ) میں۔ آگا ہ رہو، اے میری امت کے لوگو!کیا میں نے اللہ کا حکم تمہیں پہنچا دیا ہے''؟

لیکن اگر اس کا خاوند بخیل ہے اور وہ اپنی بیوی بچوں کے مناسب اخراجات ادا نہیں کرتا تو اس صورت میں وہ اپنے بچوں کے  لیے  مناسب مقدار میں اخراجات وصول کر سکتی ہے۔ وہ ضرورت سے زائد کا استحقاق نہیں رکھتی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ھند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے خاوند کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگی کہ وہ ایک بخیل شخص ہے۔ میرے اور میرے بچوں کے  لیے  کافی اخراجات نہیں دیتا۔

اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(خُذِى مِنْ مَالِهِ مَا يَكْفِيكِ وَيَكْفِى بَنِيكِ - أو قال - مَا يَكْفِيكِ وَيَكْفِى ولدك  بِالْمَعْرُوفِ) (رواہ مسلم، کتاب الاقضیۃ، باب 4)

’’ اس کے مال میں سے اتنا لے لے جو کہ تیرے  لیے  اور تیرے بچوں کے  لیے  کافی ہو ۔‘‘

دوسرے الفاظ یوں ہیں’’ جو تیرے  لیے  اور تیری اولاد کے  لیے  عرف کے مطابق کافی ہو ۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے اور اپنے بچوں کے  لیے  خاوند کے مال سے بقدر کفایت عرف کے مطابق وصول کرنے کی اجازت دے دی، چاہے اسے اس کا علم ہو یا نہ ہو۔

سائلہ کے سوال میں یہ بات مذکور ہے کہ اس نے خاوند کے سامنے حلف اٹھایا کہ اس نے اس کے مال میں سے کچھ نہیں لیا تو اس کے متعلق عرض ہے کہ اس کا یہ حلف اٹھانا حرام ہے، بجز اس صورت کے وہ تاویلا ایسی قسم اٹھائے وہ یوں کہ قسم اٹھاتے وقت اس کی نیت یہ ہو کہ میں نے ایسی کوئی چیز نہیں لی جس کا لینا مجھ پر حرام تھا، یا یہ نیت ہو کہ واللہ میں نے تجھ پر واجب اخراجات سے زائد کچھ نہیں لیا، یا اس طرح کی کوئی تاویل جو اس کے شرعی حق کے مطابق ہو۔ انسان کے مظلوم ہونے کی صورت میں ایسی تاویل جائز ہے۔ اور اگر انسان ظالم ہو یا ظالم ہو نہ مظلوم۔ تو اس صورت میں ایسی تاویل جائز نہیں ہے۔ ایسی عورت جس کا خاوند اس کے اور بچوں کے واجب اخراجات کی ادائیگی کے  لیے  بخل سے کام لیتا ہو تو ایسی عورت مظلوم ہی ہے۔ ۔۔۔شیخ محمد بن صالح عثیمین۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

مختلف فتاویٰ جات،صفحہ:341

محدث فتویٰ

تبصرے