سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(292) عورت کا نشئی خاوند کے ساتھ رہنا

  • 22358
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 775

سوال

(292) عورت کا نشئی خاوند کے ساتھ رہنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ خاوند نشے کا عادی ہے۔ اس جرم کی پاداش میں وہ پہلے قید بھی رہا ہے۔ وہ دائمی شرابی ہے۔ اس نے مجھے اور میرے بچوں کو عذاب سے دوچار کئے رکھا۔ اب اس نے مجھے طلاق دے دی ہے اور میں اپنے بچوں سمیت والدین کے ہاں مقیم ہوں۔ وہ ہم پر کچھ بھی خرچ نہیں کرتا اور مجھے اس کے پاس دوبارہ جانے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ وہ مجھ سے بچے چھین لینے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے، جبکہ میں ایک ماں ہونے کے حوالے سے اس کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس بارے میں میری راہنمائی فرمائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 یہ قضیہ شرعی عدالتوں سے تعلق رکھتا ہے۔ عادی شراب نوش کے ساتھ رہنا ناروا ہے۔ ایسا شخص بیوی بچوں کے  لیے  ضرر رساں ہے، اس سے دور ہی رہنا چاہیے۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ اس کو ہدایت نصیب فرما دے اور وہ اپنی اصلاح کرے تو دوسری بات ہے۔ اگر عدالت میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دے تو غالبا وہ بچوں کو ماں کے حوالے کرے گی، اس  لیے  کہ ماں اس کی اہل ہے اور شرابی باپ نااہل۔ جب تک اس میں شراب نوشی کی عادت موجود ہے وہ بچوں کو اپنی تحویل میں لینے کا اہل نہیں کیونکہ اس طرح وہ ان کے ضیاع اور بربادی کا باعث بنے گا۔ دریں حالات عورت آدمی سے بڑھ کر بچوں کی حقدار ہے، چاہے وہ بچیاں ہی کیوں نہ ہوں؟ بظاہر عدالتوں کا فیصلہ یہی ہونا چاہیے اور واجب بھی یہی کچھ ہے کہ بچے ماں کے پاس رہیں کیونکہ وہ باپ سے بہتر ہے۔ جبکہ ان کا باپ فاسق ہے اگر عورت خاوند سے رجوع نہ کرنا چاہے تو یہ امر مستحسن ہے کیونکہ وہ خطرات سے دوچار رہے گی۔ یہ تو اس صورت میں ہے کہ وہ جملہ کوتاہیوں کے باوجود نماز پڑھتا ہو۔ لیکن اگر وہ نماز نہیں پڑھتا تو اس صورت میں عدم رجوع واجب ہے، کیونکہ تارک صلوٰۃ کافر ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(إِنَّ الْعَهْدَ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلاَةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ) (ترمذی)

’’ ہمارے اور ان (کفار) کے درمیان نماز حد فاصل ہے، جس نے نماز کو چھوڑ دیا اس نے یقینا کفر کیا ۔‘‘ لہذا تارک نماز سے الگ رہنا واجب ہے۔

ارشاد قرآنی ہے:

(لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ) (سورۃ الممتحنۃ60؍10)

’’ وہ (مومن عورتیں) کافروں کے  لیے  حلال نہیں اور نہ وہ کافر ان مومن عورتوں کے  لیے  حلال ہیں ۔‘‘

اللہ تعالیٰ اگر اسے ہدایت نصیب فرما دے اور وہ تائب ہو جائے تو دوسری بات ہے اس سے قبل عورت اپنے میکے جا سکتی ہے یا خاوند سے الگ اپنے بچوں کے پاس رہ سکتی ہے۔

اگر وہ نماز پڑھتا ہے اور شراب بھی پیتا ہے، تو یہ ایک عظیم گناہ اور سنگین جرم ہے، لیکن وہ کافر نہیں بلکہ فاسق ہے اس بناء پر بیوی کو خاوند سے انکار کرنے اور گھر سے نکل جانے کی اجازت ہے، وہ معذور سمجھی جائے گی اور اگر وہ صبر کر سکے تو ساتھ رہنے میں کوئی حرج نہیں۔ شیخ ابن باز۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

مختلف فتاویٰ جات،صفحہ:315

محدث فتویٰ

تبصرے