السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اکثر والدین بچوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر ان کے لیے بددعا کرتے رہتے ہیں۔ اس بارے میں آپ ان کی راہنمائی فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہم والدین کو نصیحت کریں گے کہ وہ بچپن میں بچوں کی کوتاہیوں سے درگزر کریں۔ ان کی تکلیف دہ باتوں پر حلم و حوصلہ کا مظاہرہ کریں۔ بچے چونکہ ناپختہ عقل کے مالک ہوتے ہیں، اس لیے ان سے بات چیت یا کسی اور معاملہ میں غلطی سرزد ہو جاتی ہے، اگر باپ حلیم الطبع ہو تو وہ درگزر کرتے ہوئے بچے کو بڑے پیار اور نرم خوئی سے سمجھائے۔ اسے نصیحت کرے شائد اس طرح بچہ اس کی بات تسلیم کرے اور ادب کا برتاؤ کرنے میں پیش قدمی کرنے لگے۔
بعض والدین اس وقت سنگین غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں جب وہ بچوں کے لیے موت، بیماری یا آلام و مصائب کی بددعائیں کرتے ہیں اور مسلسل اس کوتاہی کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں اور جب غصہ فرو ہوتا ہے، تو اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری بددعائیں قبول ہوں اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ باپ فطرتا مہرباں اور شفیق ہوتا ہے، چونکہ وہ محض شدت غضب کی وجہ سے ایسا کر گزرتا ہے، لہذا اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّـهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ﴾ (یونس 10؍11)
’’ اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر نقصان بھی جلدی سے واقع کر دیا کرتا جس طرح وہ فائدہ کے لیے جلدی مچاتے ہیں تو ان کا وعدہ کبھی کا پورا ہو چکا ہوتا ۔‘‘
لہذا والدین کو قوت برداشت اور صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے، معمولی مار پیٹ سے ان کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے۔ بچے تعلیم و تادیب سے زیادہ جسمانی سرزنش سے متاثر ہوتے ہیں، ان کے لیے بددعا کرنا قطعا غیر سود مند ہے، وہ نہیں جانتا ہے کہ اس کے منہ سے کون سی بات نکل جائے گی، باپ نے جو کچھ کہا وہ تو لکھ لیا جائے گا اور بچے کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ شیخ ابن جبرین۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب