سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(283) میری والدہ مجھ سے ناراضگی کے عالم میں فوت ہو گئی

  • 22349
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 690

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(الف) تقریبا چھ سال پہلے رمضان المبارک میں میری والدہ کا انتقال ہوا۔ میں بچپن میں اکثر اوقات اس سے جھگڑتی اور بحث و مباحثہ کرتی رہتی تھی۔ لہذا جب وہ فوت ہوئی تو مجھ سے ناراض تھی۔ عمر میں اضافے کے ساتھ عقل و شعور میں بھی اضافہ ہوا تو اب میں اپنے اس رویہ پر نادم ہوں، اور سوائے ندامت و استغفار اور والدہ کے  لیے  اللہ تعالیٰ کے حضور رحمت و غفران کی دعا کے اور کر بھی کچھ نہیں سکتی۔ کیا یہ سب کچھ اس امر کے  لیے  کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما دے اور روز قیامت مجھ پر رحم فرمائے؟

(ب) ہم والدہ کی طرف سے روزے نہیں رکھ سکے۔ کیا اس کے  لیے  ہم گناہ گار ہیں؟ کیا ہم اب اس کی طرف سے روزے رکھ سکتے ہیں؟ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہمیں اس بات کا علم بھی تھوڑی دیر قبل ہی ہوا ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شاید آپ والدہ کی زندگی میں کم عمری کے ساتھ ساتھ عدم واقفیت اور جہالت کا بھی شکار رہی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو آپ معذور ہیں۔ عقل و شعور آ جانے کے بعد جب آپ اپنے گزشتہ طرز عمل پر نادم اور معافی کی خواستگار ہیں تو ان شاءاللہ آپ کا یہ رویہ گزشتہ کوتاہی کا ازالہ کر دے گا، اس  لیے  کہ توبہ گزشتہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔ آپ کا والدہ کے  لیے  دعاء استغفار کرنا اور اس کی طرف سے صدقات و خیرات کرنا یہ ایسے اعمال ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے آپ کے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ باقی رہے وہ روزے جو اس نے بیماری کے دوران چھوڑے تھے، تو وہ بیماری کی وجہ سے معذور تھی اور بیماری کی وجہ سے ہی وہ قضاء بھی نہ دے سکی۔ لہذا آپ پر ان کی قضاء دینا واجب نہیں ہے۔شیخ ابن جبرین

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

والدین سے حسن سلوک،صفحہ:298

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ