سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(268) ملبوساتی جرائد کا خریدنا اور انہیں سنبھال رکھنا

  • 22334
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 634

سوال

(268) ملبوساتی جرائد کا خریدنا اور انہیں سنبھال رکھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

خواتین کے ملبوسات کے جدید ترین اور رنگا رنگ ڈیزائنوں سے استفادہ کی غرض سے کیا ملبوساتی رسائل و جرائد کا خریدنا جائز ہے؟ معلوم رہے کہ ایسے جرائد عورتوں کی تصاویر سے بھرے ہوتے ہیں، تو کیا انہیں استفادہ  کرنے کے بعد سنبھال رکھنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کوئی شک نہیں کہ محض تصاویر پر مشتمل رسائل و جرائد کا خریدنا حرام ہے، اس  لیے  کہ تصاویر کا سنبھال رکھنا حرام ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

(لَا تَدْخُلُ الَمْلائِكَةُ بَيْتًا فِيهِ صُورَةٌ) (رواہ ابوداؤد، کتاب اللباس، باب 47)

’’ جس گھر میں تصویر ہو اس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے ۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے تکیے پر تصویر دیکھی تو وہیں کھڑے ہو گئے اور اندر تشریف نہ لائے، آپ کے چہرہ ٔانور پر کراہت کے آثار نمایاں تھے۔

مختلف ملبوسات پیش کرنے والے رسائل و جرائد کے بارے میں دیکھنا ہو گا اس  لیے  کہ ہر طرح کا لباس جائز نہیں ہو سکتا، کچھ ملبوسات تو بے پردگی کا باعث بنتے ہیں جبکہ بعض تنگ اور مختصر ہونے کی بناء پر کفار کے مخصوص لباس کا حصہ ہوتے ہیں اور کفار سے مشابہت حرام ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ) (ابوداؤد 4031 و احمد 2؍50،92)

’’ جو شخص کسی قوم سے مشابہت اپنائے گا تو وہ انہی میں سے ہے ۔‘‘

میری مسلمان بھائیوں کو عام طور پر اور مسلمان خواتین کو خاص طور پر نصیحت ہے کہ وہ ایسے لباس سے پرہیز کریں جو کفار سے مشابہت اور بے پردگی سے عبارت ہو۔

دوسری بات یہ ہے کہ خواتین کا ہر جدید فیشن والے لباس میں دلچسپی لینا عام طور پر اس امر کا باعث بنتا ہے کہ ہمارے دین حنیف کی اساس پر قائم عادات و اطوار غیر مسلموں سے ماخوذ عادات و اطوار میں بدل جاتی ہیں جو کہ غیر مستحسن بات ہے۔ ۔۔۔شیخ محمد بن صالح عثیمین۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

پردہ، لباس اور زیب و زینت،صفحہ:287

محدث فتویٰ

تبصرے