سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(252) ابرو کے بال کاٹنے، ناخن بڑھانے اور نیل پالش لگانے کا حکم

  • 22318
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 977

سوال

(252) ابرو کے بال کاٹنے، ناخن بڑھانے اور نیل پالش لگانے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(1) ابرو کے زائد بالوں میں کمی کرنے کا کیا حکم ہے؟

(2) ناخن بڑھانے اور ناخن پالش لگانے کا کیا حکم ہے؟ واضح رہے کہ میں ناخن پالش لگانے سے پہلے وضو کر لیتی ہوں اور چوبیس گھنٹے بعد اس کو اتار دیتی ہوں۔

(3) کیا عورت بیرونی سفر کے دوران صرف چہرہ ننگا رکھ سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 (1) ابرو کے بال اتارنا یا انہیں باریک کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے کے بال اکھاڑنے والی اور اکھڑوانے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔ جبکہ علماء نے اس امر کی وضاحت فرمائی ہے کہ ابرو کے بال اتارنا بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔

(2) ناخن بڑھانا خلاف سنت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(الفِطْرَةُ خَمْسٌ: الخِتَانُ، وَالِاسْتِحْدَادُ، وَنَتْفُ الإِبْطِ، وَقَصُّ الشَّارِبِ، وَتَقْلِيمُ الأَظْفَارِ) (رواہ مسلم، کتاب الطھارۃ، باب 16)

’’ پانچ چیزیں فطرت سے ہیں، ختنہ کرنا اور  استرا استعمال کرنا اور  مونچھیں کاٹنا اور بغلوں کے بال اکھاڑنا اور ناخن تراشنا ۔‘‘

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

(وَقَّتَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَصِّ الشَّارِبِ وَحَلْقِ الْعَانَةِ وَنَتْفِ الإِبْطِ وَتَقْلِيمِ الأَظْفَارِ أَنْ لَا يُتْرَكَ أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً) (صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ)

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے مونچھیں کاٹنے ، ناخن تراشنے ،بغلوں کے بال اکھاڑنے اور زیر ناف بال مونڈنے کے  لیے  وقت مقرر فرمایا کہ ہم چالیس دن سے زیادہ ان میں سے کچھ نہ چھوڑیں ۔‘‘

نیز اس  لیے  بھی کہ ناخن بڑھانا درندوں اور کفار کے ساتھ مشابہت ہے۔ جہاں تک نیل پالش وغیرہ کا تعلق ہے تو وضو کے  لیے  اس کا اتارنا واجب ہے کیونکہ یہ ناخنوں تک پانی پہنچنے میں رکاوٹ ہے۔

(3) اندرون ملک یا بیرون ملک ہر جگہ اجنبیوں (غیر محرم مردوں) سے پردہ کرنا عورت پر فرض ہے۔

کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ  ﴾ (الاحزاب 33؍53)

’’ اور جب تم ان (ازواج مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی کامل پاکیزگی ہے۔‘‘

یہ آیت چہرے اور غیر چہرے کے  لیے  عام ہے۔ نیز اس  لیے  بھی کہ چہرہ عورت کی پہچان اور بڑی زینت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا  ﴾ (الاحزاب 33؍59)

’’ اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)! فرما دیجئے اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور عام اہل ایمان کی عورتوں سے کہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں اس سے وہ جلد پہچان لی جایا کریں گی اور اس سے انہیں ستایا نہ جائے گا اور اللہ تعالیٰ تو بڑا مغفرت والا بڑا رحمت والا ہے ۔‘‘

نیز ارشاد ہوتا ہے:

﴿وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ ﴾  (النور 24؍31)

’’ اور اپنی آرائش کو ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے ۔‘‘

یہ آیات مبارکہ اندرون و بیرون ملک ہر جگہ مسلمان اور کافر سب سے وجوب پردہ کی دلیل ہیں۔ کسی بھی مومن عورت کو اس میں سستی و کاہلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے، اس  لیے  کہ یہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے، نیز اس  لیے  بھی کہ بے حجابی عورت کے  لیے  گھر اور باہر ہر جگہ باعث فتنہ ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

پردہ، لباس اور زیب و زینت،صفحہ:273

محدث فتویٰ

تبصرے