سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(238) بیرون وطن چہرہ کھلا رکھنے کا حکم

  • 22304
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 624

سوال

(238) بیرون وطن چہرہ کھلا رکھنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا سعودی عرب سے باہر سفر کی صورت میں میرے  لیے  چہرہ ننگا کرنا اور پردہ اتار پھینکنا جائز ہے؟ کیوں کہ اس وقت ہم اپنے وطن سے دور ہوتے ہیں اور کوئی ہمیں پہچانتا بھی تو نہیں، میری والدہ میرے والد کو اس بات پر آمادہ کرتی رہتی ہے کہ وہ مجھے چہرہ ننگا رکھنے پر مجبور کرے اور اس  لیے  بھی کہ جب میں اپنا چہرہ چھپا کر رکھتی ہوں تو وہ میرے بارے میں گمان کرتے ہیں کہ شاید میں لوگوں کی طرف اپنی نظر کو پھیرتی ہوں (چہرہ ننگا ہونے کی صورت میں وہ میری نظروں کی حفاظت کر سکیں گے)۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 آپ یا کسی بھی مسلمان خاتون کے  لیے  بلاد کفر میں بھی اسی طرح بے پردہ ہونا جائز نہیں ہے جس طرح کہ اسلامی ملکوں میں جائز نہیں ہے۔ اجنبی مردوں سے پردہ کرنا بہرحال واجب ہے چاہے وہ مسلمان ہوں یا کافر بلکہ کافروں سے تو زیادہ شدت کے ساتھ پردہ کرنا چاہیے کیونکہ ان کا تو کوئی ایمان ہی نہیں ہے جو انہیں محرمات شرعیہ سے روک سکے۔ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء کے ارتکاب کے  لیے  والدین یا غیر والدین، کسی کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ نہ آپ کے  لیے  اور نہ ہی کسی اور کے  لیے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ﴾  (الاحزاب 33؍53)

’’ اور جب تم ان (ازواج مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمہارے اور ان کے دلوں کی کامل پاکیزگی ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں واضح فرما دیا ہے کہ عورتوں کا غیر محرم مردوں سے پردہ کرنا سب کے دلوں کے  لیے  باعث طہارت و پاکیزگی ہے۔

اسی طرح سورہ ٔنور میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوا إِلَى اللَّـهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٣١﴾ (النور 24؍31)

’’ (اے نبی!) ایمان والی عورتوں سے فرما دیجئے کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش (یعنی زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں مگر جو اس میں کھلا رہتا ہو اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند، باپ، خسر، اپنے بیٹوں، خاوند کے بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی، غلاموں کے سوا، نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں کو جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگار کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیں۔ اور اپنے پاؤں (اس طرح زمین پر) نہ ماریں کہ (جھنکار کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے۔ اے اہل ایمان! سب اللہ کے آگے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘

اور چہرہ تو سب سے بڑی زینت ہے۔ ۔۔۔شیخ ابن باز۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

پردہ، لباس اور زیب و زینت،صفحہ:263

محدث فتویٰ

تبصرے