سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(236) شرعی پردہ کرنے والی عورت کا مذاق اڑانا

  • 22302
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 713

سوال

(236) شرعی پردہ کرنے والی عورت کا مذاق اڑانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ایسا شخص جو شرعی پردہ کرنے والی خاتون کا مذاق اڑاتا ہے، شرعا کیا حکم رکھتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 جو شخص کسی مسلمان خاتون یا مرد کا اس  لیے  مذاق اڑاتا ہے کہ وہ پابند شریعت ہے تو ایسا شخص کافر ہے، ایسا استہزاء مسلمان خاتون کے شرعی پردہ کرنے کی وجہ سے ہو، یا کسی اور وجہ سے اس  لیے  کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: ایک شخص نے غزوۂ تبوک کے موقعہ پر ایک مجلس میں کہا: میں نے ان قراء حضرات جیسا پیٹو، جھوٹا اور بزدل کوئی نہیں دیکھا، اس پر ایک شخص نے اسے کہا: تو جھوٹ بولتا ہے، تو منافق ہے، میں اس بات سے ضرور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کروں گا۔ یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی، آسمان سے قرآن نازل ہو گیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما  کا بیان ہے: میں نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (چلتی) اونٹنی کے کجاوے والی پٹی (یعنی اونٹنی کے تنگ) کے ساتھ لٹکتا ہوا جا رہا تھا اور پتھر اسے زخمی کر رہے تھے، وہ کہہ رہا تھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو صرف ہنسی مذاق کر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے ان کلمات سے جواب دیا:

﴿قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ ﴿٦٦﴾ (التوبة 9؍65-66)

’’ آپ فرما دیجئے کیا تم، اللہ، اس کی آیات اور اس کے رسول سے ہنسی مذاق کرتے تھے؟ بہانے مت بناؤ، تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔ اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کر دیں تو دوسری جماعت کو سزا بھی دیں گے کیونکہ وہ مجرم تھے ۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ساتھ استہزاء کو اللہ، رسول اللہ اور آیات اللہ کے استہزاء کے مترادف قرار دیا ہے۔ وبالله التوفيق ۔۔۔دارالافتاء کمیٹی۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

پردہ، لباس اور زیب و زینت،صفحہ:261

محدث فتویٰ

تبصرے