سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(232) عورت کا خاوند کے قریبی عزیزوں کے سامنے بے پردہ ہونا

  • 22298
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 744

سوال

(232) عورت کا خاوند کے قریبی عزیزوں کے سامنے بے پردہ ہونا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی شخص کی بیوی شریعت کی رو سے اپنے خاوند کے بھائیوں یا اس کے چچا کے بیٹوں کے سامنے بے حجاب ہو سکتی ہے؟ اور کیا بالغ لڑکا اپنی ماں یا بہن کے ساتھ سو سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اولا: خاوند کے بھائی یا اس کے چچا زاد محض اس رشتے کی بنیاد پر بیوی کے  لیے  محرم نہیں ہیں۔ لہذا وہ ان کے سامنے اپنے جسم کے وہ حصے ننگے نہیں کر سکتی جنہیں وہ اپنے محرم رشتوں کے سامنے ننگا کر سکتی ہے، وہ لوگ اگرچہ نیک اور قابل اعتماد ہی کیوں نہ ہوں، بہرحال محرم نہیں ہیں، عورت جن لوگوں کے سامنے اپنی زینت ظاہر کر سکتی ہے ان کا بیان اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا:

﴿وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ أَوْ آبَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَائِهِنَّ أَوْ أَبْنَاءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَاتِهِنَّ أَوْ نِسَائِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُنَّ أَوِ التَّابِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الطِّفْلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَىٰ عَوْرَاتِ النِّسَاءِ  ۖ ﴾  (النور 24؍31)

’’ اور اپنی آرائش (زیب و زینت) کو ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے خسر کے یا اپنے بیٹوں کے یا اپنے خاوندوں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا اپنے غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے واقف (مطلع) نہیں۔‘‘

خاوند کے بھائی یا اس کے چچا زاد محض ان رشتوں کی وجہ سے بیوی کے محرم نہیں ہیں، عزت و آبرو کے تحفط اور فساد و شر کے ذرائع کو روکنے کی خاطر، اللہ تعالیٰ نے صالح اور غیر صالح میں کوئی فرق نہیں کیا۔ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خاوند کے بھائی کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

(الْحَمْوُ الْمَوْتُ) (رواہ الترمذی فی کتاب الرضاع و احمد 4؍49)

’’  خاوند کا بھائی موت ہے ۔‘‘

’’  حمو‘‘ سے مراد خاوند کے بھائی (جیٹھ، دیور) ہیں جو کہ بیوی کے  لیے  محرم نہیں ہیں، لہذا مسلمان کو دین کے تحفظ اور عزت و آبرو کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔

ثانیا: بچے جب بالغ ہو جائیں یا ان کی عمر دس برس یا اس سے زیادہ ہو جائے تو شرمگاہوں کے تحفظ، فتنہ انگیزی سے دور رہنے اور شر کے سدباب کے طور پر ان کے  لیے  ماں یا بہن کے ساتھ سونا جائز نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس سال کی عمر میں بچوں کے بستر الگ کرنے کا حکم صادر فرمایا ہے:

(مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ لِسَبْعٍ , وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا لِعَشْرٍ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ)  (رواہ ابوداؤد فی کتاب الصلاة باب 25)

’’ سات سال کے بچوں کو نماز کا حکم دو، دس سال کی عمر میں انہیں نماز نہ پڑھنے پر مارو اور ان کے بستر الگ الگ کر دو ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے نابالغ بچوں کو بھی ان تین اوقات میں اجازت لے کر اندر آنے کا حکم دیا ہے جن میں بے پردہ ہونے کے امکانات ہیں اور تاکید ان اوقات کا نام (عورات) پردہ رکھا ہے، ارشاد باری ہے:

﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنكُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ۚ مِّن قَبْلِ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَمِن بَعْدِ صَلَاةِ الْعِشَاءِ ۚ ثَلَاثُ عَوْرَاتٍ لَّكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ ۚ طَوَّافُونَ عَلَيْكُم بَعْضُكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمُ الْآيَاتِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٥٨﴾ (النور 24؍58)

’’ اے ایمان والو! تم سے تمہاری ملکیت کے غلاموں کو اور انہیں بھی جو تم میں سے نابالغ ہوں اپنے آنے کے تین وقتوں میں اجازت حاصل کرنی ضروری ہے۔ نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جبکہ تم اپنے کپڑے اتار رکھتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد، یہ تینوں وقت تمہاری خلوت اور پردہ کے ہیں۔ ان وقتوں کے علاوہ نہ تو تم پر کوئی گناہ ہے نہ ان پر۔ تم ایک دوسرے کے پاس بکثرت آنے جانے والے ہو۔ اللہ تعالیٰ اسی طرح کھول کھول کر اپنے احکام تم سے بیان فرما رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ پورے علم اور کامل حکمت والا ہے ۔‘‘

جبکہ مردوں کو ہر وقت گھر والوں سے اجازت لے کر ہی اندر آنے کی اجازت دی ہے۔ فرمایا:

﴿ وَإِذَا بَلَغَ الْأَطْفَالُ مِنكُمُ الْحُلُمَ فَلْيَسْتَأْذِنُوا كَمَا اسْتَأْذَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّـهُ لَكُمْ آيَاتِهِ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٥٩﴾ (النور 24؍59)

’’  اور جب تمہارے بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو انہیں بھی اسی طرح اجازت مانگ کر آنا چاہیے جس طرح ان کے بڑے لوگ (یعنی بالغ) اجازت لیتے رہے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی آیتیں (کھول کھول کر) بیان فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی علم و حکمت والا ہے ۔‘‘

باقی رہے دس سال سے کم عمر کے بچے تو وہ اپنی ماں یا بہن کے ساتھ سو سکتے ہیں، ایک تو اس  لیے  کہ انہیں ابھی نگرانی کی ضرورت ہے دوسرے یہاں فتنے کا کوئی امکان نہیں، اگر فتنہ و فساد کا خوف نہ ہو تو تمام بالغوں سمیت سب لوگ الگ الگ بستروں میں ایک ہی کمرے کے اندر سو سکتے ہیں۔ وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم ۔۔۔دارالافتاء کمیٹی۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

پردہ، لباس اور زیب و زینت،صفحہ:257

محدث فتویٰ

تبصرے