السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک ایسی ستر سالہ عورت کا خاوند فوت ہو گیا جو کہ چنداں عقل و شعور کی حامل نہ تھی، اور خاوند کی خدمت کی پوزیشن میں بھی نہیں تھی، جب اس کا خاوند فوت ہوا تو وہ اس کے عقد میں تھی، کیا اس پر بھی عام عورتوں کی طرح عدت گزارنا واجب ہے؟ اور اگر بوڑھی عورت پر عدت دوسری عورت کی طرح واجب ہے تو اس کی حکمت کیا ہے؟ جب عدت کی مشروعیت کا مقصد عورت کے حاملہ یا غیر حاملہ ہونے کا تیقن ہے تو ایسی عورت کے لیے تو حمل کا امکان ہی نہیں، پھر عدت کس لیے ؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال میں مذکورہ عورت عدت گزارے۔ اس کی عدت چار ماہ دس دن اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے عموم میں داخل ہے:
(وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ) (البقرة 2؍234)
’’ اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں، ان کی بیویاں اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن تک روکے رکھیں ۔‘‘
عورت کے معمر ہونے اور حمل کی صلاحیت نہ رکھنے کے باوجود اس کے عدت گزارنے کی حکمت عقد نکاح کی تعظیم اس کی قدر و منزلت اور شرف و بزرگی کا اظہار، نیز خاوند کے حق کی ادائیگی اور تزئین و تجمیل سے پرہیز کر کے اس کی وفات کے نتیجے میں مرتب ہونے والے اثرات کا اظہار کرنا مقصود ہوتا ہے، اسی لیے شریعت نے باپ اور بیٹے سے کہیں زیادہ خاوند کا سوگ منانے کو مشروع قرار دیا ہے۔ حاملہ عورت کی عدت فقط وضع حمل ہے۔
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم عام ہے:
(وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ) (الطلاق 65؍4)
’’ اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے ۔‘‘
اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان کے عمومی حکم کی تخصیص کر رہی ہے۔
(وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ۖ) (البقرة 2؍234)
’’ اور تم میں سے جو لوگ وفات پا جاتے ہیں اور بیویاں چھوڑ جاتے ہیں ان کی بیویاں اپنے آپ کو چار ماہ اور دس دن روکے رکھیں ۔‘‘
وضع حمل سے عدت ختم ہونے کی حکمت یہ ہے کہ چونکہ حمل پہلے خاوند کا حق ہے، اگر حاملہ عورت نے خاوند کی وفات یا کسی اور وجہ سے جدائی کے بعد فورا نکاح کر لیا تو دوسرے خاوند نے اپنا پانی غیر کی کھیتی کو پلایا اور یہ جائز نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے:
(لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مُسْلِمٍ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَن يَسْقي ماءَهُ زَرْعَ غيرهِ) (سنن ابی داؤد، کتاب النکاح حدیث 2158 و احمد بن حنبل 4؍108)
’’ کسی ایسے مسلمان کے لیے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہو یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنا پانی غیر کی کھیتی کو پلائے ۔‘‘
ایک مسلمان پر شرعی احکام کی تعمیل کرنا ضروری ہے، اسے ان احکام کی حکمت کا علم ہو یا نہ ہو۔ اسے اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اپنی جملہ مشروعات میں حکیم ہے، جسے اللہ تعالیٰ حکمت کی معرفت عطا فرما دے تو یہ نور علی نور اور خیر الی خیر ہے۔ وبالله التوفيق ۔۔۔دارالافتاء کمیٹی۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب