سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(159) نماز باجماعت کے تارک کو رشتہ نہ دیا جائے

  • 22225
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 659

سوال

(159) نماز باجماعت کے تارک کو رشتہ نہ دیا جائے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں ایک نوجوان میری بہن کا رشتہ طلب کرنے آیا، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ باجماعت نماز ادا نہیں کرتا، اس پر ہمارے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا کہ اسے رشتہ دیا جائے یا انکار کر دیا جائے۔ میرے بھائی کا کہنا تھا کہ ہم اسے رشتہ دے دیں، شائد اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نصیب فرما دے، لیکن والد صاحب نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ میں اس بارے میں شرعی حکم چاہتی ہوں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس شخص کے متعلق معلوم ہو کہ وہ نماز باجماعت نہیں پڑھتا تو ضروری ہے کہ اسے رشتہ نہ دیا جائے۔ اس  لیے  کہ جماعت کا ترک کر دینا کھلی معصیت ہے۔ یہ منافقوں کی علامت ہے اور کلیتا ترک نماز کا پیش خیمہ ہے جو کہ کفر اکبر ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّـهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ  ) (النساء 4؍142)

’’ بےشک منافقین اللہ تعالیٰ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی چالبازیاں ان پر الٹ رہا ہے اور یہ لوگ جب نماز کے  لیے  کھڑے ہوتے ہیں تو بہت ہی کاہلی سے کھڑے ہوتے ہیں۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(إِنَّ أَثْقَلَ صَلَاةٍ عَلَى الْمُنَافِقِينَ صَلَاةُ الْعِشَاءِ، وَصَلَاةُ الْفَجْرِ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا) (متفق علیہ)

’’ عشاء اور صبح کی نمازیں منافقوں پر انتہائی بھاری ہیں اور اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ کتنی فضیلت کی حامل ہیں تو چاہے انہیں گھٹنوں کے بل آنا پڑے ضرور آئیں ۔‘‘

ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

(لَقَدْ رَأَيْتُنَا وَمَا يَتَخَلَّفُ عَنْهَا۔ يعنى الصلاة فى الجماعة۔ إِلَّا مُنَافِقٌ مَعْلُومُ النِّفَاقِ) (صحیح مسلم)

’’ ہم دیکھتے تھے کہ نماز باجماعت سے صرف خالص منافق ہی پیچھے رہتے تھے ۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے:

(إِنَّ الْعَهْدَ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلاَةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ  ) (سنن ترمذی رقم 2623، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ رقم 1079، مسند احمد 5؍346، مستدرک الحاکم 1؍7 سنن الدارمی، السنن الکبری للبیہقی 3؍366، مصنف ابن ابی شیبہ 11؍34 و صحیح ابن حبان، رقم 1454)

’’ ہمارے اور کفار و مشرکین کے مابین صرف نماز ہی حد فاصل ہے، جس نے نماز کو چھوڑ دیا اس نے یقینا کفر کیا ۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور ارشاد  یوں ہے:

(بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ وَالشِّرْكِ تَرَكُ الصَّلَاةِ) (صحیح مسلم)

’’ مسلمان اور کفر و شرک کے درمیان ترک نماز کا فاصلہ ہے ۔‘‘

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز باجماعت کا ترک کرنا کلیتا نماز ترک کرنے کا پیش خیمہ ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور سب کی ہدایت اور توفیق کے  لیے  دعاگو ہیں۔ ۔۔شیخ ابن باز۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

نكاح،صفحہ:173

محدث فتویٰ

تبصرے