السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محرم ميں نئے اسلامي سال كی مباركباد دينے كا كيا حكم هے۔؟قرآن و سنت كی روشني ميں جواب دے كر مشكور ہوں۔ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی سے پوچھاگیا کہ نئے سال کی مبارکباد دینے کا حکم کیا ہے اورمبارکباد دینے والے کوکیا جواب دینا چاہیے ؟ توشيخ رحمہ اللہ تعالی کا جواب تھا : اس مسئلہ میں صحیح یہی ہے کہ : اگرکوئي شخص آپ کومبارکباد دیتا ہے تواسے جوابا مبارکباد دو لیکن اسے نئے سال کی مبارکباد دینے میں خود پہل نہ کرو ، مثلا اگر کوئي شخص آپ کویہ کہتا ہے کہ : ہم آپ کو نئے سال کی مبارکباد دیتے ہیں ، توآپ اسے جواب میں یہ کہیں : اللہ تعالی آپ کو خیرو بھلائی دے اور اسے خير و برکت کا سال بنائے ، لیکن آپ لوگوں کونئے سال کی مبارکباد دینے میں پہل نہ کریں ، اس لیے کہ میرے علم میں نہیں کہ سلف رحمہم اللہ تعالی میں سے کسی ایک سے یہ ثابت ہو کہ وہ نئے سال پر کسی کومبارکباد دیتے ہوں ۔ بلکہ یہ بات بھی آپ کے علم میں ہونا ضروری ہے کہ سلف رحمہ اللہ تعالی نے تو محرم کے مہینہ کو نئے سال کی ابتداء نہیں بنایا بلکہ یہ تو عمررضی اللہ تعالی عنہ کے دورخلافت میں شروع ہوا ۔ انتھی ۔ مصدر:یہ جواب موسوعہ اللقاء الشھری والباب المفتوح سوال نمبر ( 853 ) اصدار اول ناشر مکتب الدعوۃ الارشاد عنیزہ القصیم سے لیا گیا ۔ اورشیخ عبدالکریم الخضير نے ھجری سال کے شروع ہونے کی مبارکباد دینے کے بارہ میں کہا ہے : کسی مسلمان کو تہواروں مثلا عید وغیرہ پردعا کے الفاظ کوعبادت نہ بتاتے ہوئے مطلقا دعا دینے میں کوئی حرج والی بات نہيں ، اور خاص کر ایسا کرنے میں جب محبت ومودت اور خوشی وسرور مسلمان کے سے خوشدلی سے پیش آنا مقصود ہو ۔ امام احمد رحمہ اللہ تعالی کہتےہیں : میں مبارکباد دینے میں ابتداء نہيں کرونگا ، لیکن اگر مجھے کوئی مبارکباد دے تو میں اسے جواب ضرور دونگا ، اس لیے کہ سلام کا جواب دینا واجب ہے ، لیکن مبارکباد دینے کی ابتداء کرنا سنت نہيں نہ جس کا حکم دیا گيا ہو اور نہ ہی اس سے روکا ہی گيا ہے ۔ هذا ما عندي والله اعلم بالصوابفتاویٰ علمائے حدیثکتاب الصلاۃجلد 1 |