السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر عورت قربانی کرنا چاہے تو کیا وہ سر میں کنگھی نہ کرے دریں حالت اگر وہ دس دن تک ایسا نہ کرے تو اسے شدید دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا سے صحیح حدیث مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إِذَا دَخَلَتِ الْعَشْرُ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعْرِهِ، وَلَا مِنْ بَشَرِهِ شَيْئًا) (رواہ النسائی فی کتاب الضحایا ،باب 1 والدارمی فی کتاب الاضاحی، باب 1 وفی روایة)
’’ جب عشرہ ذی الحجہ شروع ہو جائے اور تم میں سے کوئی شخص قربانی دینا چاہے تو وہ اپنے بالوں اور جسم سے کچھ نہ اکھاڑے کاٹے۔‘‘
ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ایک دوسری روایت مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ، فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ) (رواہ مسلم فی کتاب الاضاحی باب 8)
’’ جب تم ذی الحجہ کا چاند دیکھ لو اور تم میں سے جو کوئی قربانی دینا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بالوں اور ناخنوں سے کچھ نہ لے یعنی کچھ نہ کاٹے ۔‘‘
علماء فرماتے ہیں کہ اس سے مراد بال مونڈنا، کاٹنا، اکھاڑنا یا پاؤڈر وغیرہ سے ان کا ازالہ کرنا ہے، یہ سب کچھ منع ہے۔ اس بناء پر کنگھی کرنا یا بالوں کا سنوارنا اس ممانعت کے تحت نہیں آتا۔ اسی طرح بالوں کا دھونا وغیرہ بھی منع نہیں ہے۔ اگر بلا ارادہ کوئی بال گر جائے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں عورت کے لیے ضرورت کے پیش نظر بالوں میں کنگھی کرنا جائز ہے۔ قربانی نفلی ہو یا کوئی اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ واللہ اعلم ۔۔۔شیخ ابن جبرین۔۔۔
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب