السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک خاتون دریافت کرتی ہے کہ وہ حیض میں مبتلا تھی۔ اس کے اہل خانہ نے عمرہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اگر وہ گھر والوں کے ساتھ نہ جاتی تو گھر پر اکیلی رہ جاتی۔ لہذا وہ ان کے ساتھ عمرے کے لیے روانہ ہو گئی اور عمرے کے تمام مناسک بشمول طواف و سعی اس طرح ادا کئے گویا کہ اس پر مانع عمرہ کوئی عذر نہیں تھا، اور اس نے یہ سب کچھ عدم واقفیت اور شرمساری کی بناء پر کیا کہ اسے اپنی اس حالت کے متعلق اپنے سرپرست (باپ وغیرہ) کو بتانا پڑتا۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ وہ ایک ان پڑھ عورت ہے، لکھنا پڑھنا نہیں جانتی۔ دریں حالات اب اسے کیا کرنا چاہیے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر اس نے اہل خانہ کے ساتھ عمرے کا احرام باندھا تھا تو اس پر غسل کرنے کے بعد دوبارہ طواف کرنا ضروری ہے، اسی طرح وہ حلال ہوتے وقت اپنی چٹیا کے بال بھی کاٹے، البتہ علماء کے صحیح قول کی رو سے اس کی سعی درست ہے اور وہی اس کے لیے کافی ہے ویسے احتیاط اور افضیلت اسی میں ہے کہ وہ طواف کرنے کے بعد سعی بھی دوبارہ کرے۔ اسے حیض کی حالت میں طواف کرنے اور طواف دو رکعت نماز پڑھنے پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے۔
اگر عورت شادی شدہ ہے تو وہ عمرے کی تکمیل تک خاوند کے لیے حلال نہیں ہو گی اور اگر اس کا خاوند عمرہ مکمل ہونے سے پہلے اس سے جماع کر چکا ہے تو اس عورت کا عمرہ فاسد ہو جائے گا اور اس پر ایک سالہ چھترا یا دو سالہ (دوندا) بکرا فدیہ مکہ میں ہی وہاں کے فقراء کے لیے ذبح کرنا واجب ہو گا اور جیسا کہ ہم نے ابھی بتایا ہے اسے عمرہ بھی مکمل کرنا ہو گا۔ یعنی اس نے جہاں سے پہلے عمرہ کا احرام باندھا تھا وہیں سے دوبارہ احرام باندھ کر فاسد عمرے کی جگہ ایک اور عمرہ اسے کرنا ہو گا۔ ہاں اگر عورت نے شرم و حیا کی وجہ سے اہل خانہ کے ساتھ طواف و سعی تو کی مگر اس نے میقات سے احرام نہیں باندھا تھا تو اسے توبہ کے علاوہ کچھ نہیں کرنا ہو گا، کیونکہ حج اور عمرے کے لیے احرام باندھنا شرط ہے اور احرام کا مطلب ہے عمرہ یا حج یا دونوں کی نیت کرنا۔ ہم، سب کے لیے اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور شیطان کے حملے سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔شیخ ابن باز
ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب