سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(33) حیض و جنابت کے لئے عورت کے غسل کی کیفیت کا بیان

  • 22099
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 928

سوال

(33) حیض و جنابت کے لئے عورت کے غسل کی کیفیت کا بیان

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا مرد و عورت کے غسل جنابت میں کوئی فرق ہے؟ اور کیا عورت پر غسل کے  لیے  اپنے سر کے بال کھولنا ضروری ہیں؟ یا حدیث نبوی کی بناء پر تین لپ پانی ڈال لینا ہی کافی ہے؟ نیز غسل جنابت اور غسل حیض میں کیا فرق ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرد و عورت کے غسل جنابت میں کوئی فرق نہیں ہے اور کسی پر بھی غسل کے  لیے  بالوں کا کھولنا ضروری نہیں ہے، بلکہ بالوں پر تین لپ پانی ڈال کر باقی جسم کو دھو لینا کافی ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:

(إِنِّي امْرَأَةٌ أَشُدُّ ضَفْرَ رَأْسِي فَأَنْقُضُهُ لِغُسْلِ الْجَنَابَةِ قَالَ : ( لَا إِنَّمَا يَكْفِيكِ أَنْ تَحْثِي عَلَى رَأْسِكِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ ثُمَّ تُفِيضِى عَلَيْكِ الْمَاءَ فَتَطْهُرِى) (صحیح مسلم)

’’ میں سخت گندھے ہوئے بالوں والی عورت ہوں، کیا انہیں غسل جنابت کے  لیے  کھولا کروں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، تیرے  لیے  یہی کافی ہو گا کہ سر پر پانی انڈیل کر غسل جنابت کر لے ۔‘‘

اگر عورت یا مرد کے جسم پر مہندی وغیرہ لگی ہو اور اس کی وجہ سے پانی جسم تک نہ پہنچ سکتا ہو تو اس کا ازالہ ضروری ہے۔ جہاں تک عورت کے غسل جنابت کا تعلق ہے تو اس صورت میں اس کے  لیے  بالوں کا کھولنا مختلف فیہ ہے۔ درست بات یہ ہے کہ عورت پر بالوں کا کھولنا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ بعض روایات میں ہے کہ حضرت ام سلمیٰ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا:

(إِنِّي امْرَأَةٌ أَشُدُّ ضَفْرَ رَأْسِي فَأَنْقُضُهُ لِغُسْلِ الْجَنَابَةِ؟  قَالَ : لَا إِنَّمَا يَكْفِيكِ أَنْ تَحْثِي عَلَى رَأْسِكِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ ثُمَّ تُفِيضِى عَلَيْكِ الْمَاءَ فَتَطْهُرِى)  (صحیح مسلم)

پس یہ روایت اس بارے میں نص ہے کہ غسل حیض یا غسل جنابت کی صورت میں عورت پر بالوں کا کھولنا واجب نہیں ہے، لیکن افضل یہ ہے کہ عورت غسل حیض کے  لیے  بالوں کو کھول لے۔ اس طرح مختلف دلائل کے مابین تطبیق کی صورت پیدا ہو سکتی ہے اور اختلاف سے بچنا بھی ممکن ہو گا اور احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے۔ ۔۔۔۔دارالافتاء کمیٹی۔۔۔۔

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

طہارت،صفحہ:74

محدث فتویٰ

تبصرے