سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(13) بیماری کے سبب رونے کا حکم

  • 22079
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 905

سوال

(13) بیماری کے سبب رونے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں بیمار ہوں اور کبھی کبھی اپنی المناک حالت پر غیر ارادی طور پر رونے لگتی ہوں، تو کیا اس طرح رونے کا مطلب اللہ تعالیٰ پر اعتراض اور اس کے فیصلے پر عدم رضا کا اظہار ہے؟ نیز کیا بیماری کے بارے میں رشتے داروں سے بات کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر راضی نہ ہونے میں داخل ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر رونا آہ فغاں (چیخ و پکار) کے بغیر صرف آنسوؤں کی صورت میں ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر ابراہیم کا انتقال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(إِنَّ الْعَيْنَ تَدْمَعُ، وَالْقَلْبَ يَحْزَنُ، وَلا نَقُولُ ان شاءالله  إِلا مَا يَرْضَى رَبُّنَا، وَإِنَّا بِفِرَاقِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُنُونَ)  (کنز العمال 15؍42483)

’’ آنکھیں آنسو بہا  رہی ہیں اور دل غمگین ہے لیکن ہم وہی کچھ کہیں گے ان شاءاللہ جو ہمارے رب کو راضی کرے۔ ابراہیم! ہم تیری جدائی پر غمگین ہیں ۔‘‘

اس مفہوم کی کئی اور احادیث بھی وارد ہیں۔ اسی طرح اگر آپ بیماری سے متعلق اپنے عزیزوں سے بات کرتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتی اور اس کا شکریہ ادا کرتی ہیں اس سے صحت و عافیت کا سوال کرتی اور جائز اسباب اپناتی ہیں تو ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ہم آپ کو صبر و ثابت قدمی کی وصیت کرتے ہیں۔ آپ کو خیر کی خوشخبری دینا چاہتے ہیں، اس  لیے  کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ ﴾ (الزمر 39؍10)

’’ ثابت قدم رہنے والوں کو ان کا اجر بے شمار ملے گا ۔‘‘

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(لَا يُصِيبُ الْمَرْءَ الْمُؤْمِنَ مِنْ نَصَبٍ، وَلَا وَصَبٍ، وَلَا هَمٍّ، وَلَا حُزْنٍ، وَلَا غَمٍّ، وَلَا أَذًى حَتَّى الشَّوْكَةُ يُشَاكُهَا، إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ عَنْهُ بِهَا خَطَايَاهُ) (کنز العمال 3؍6848)

’’ بندۂ مسلم کو کوئی غم و اندوہ، تھکاوٹ اور بیماری لاحق نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی تکلیف، حتی کہ کانٹا تک نہیں چبھتا مگر اللہ تعالیٰ ان سب کے بدلے میں اس کے گناہ مٹا دیتا ہے ۔‘‘

نیز فرمایا:

(مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُصِبْ مِنْهُ) (صحیح البخاری 7؍149)

’’ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے تکلیف سے دوچار کر دیتا ہے ۔‘‘

ہم اللہ تعالیٰ کے حضور دعاگو ہیں کہ وہ آپ کو صحت و عافیت سے نوازے، قلب و عمل کی اصلاح فرمائے تحقیق وہ سننے اور قبول کرنے والا ہے۔ شیخ ابن باز

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

عقیدہ  ،صفحہ:49

محدث فتویٰ

تبصرے