سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(5) ہمیں بے نماز رشتے داروں سے کیا سلوک کرنا چاہیے؟

  • 22071
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 931

سوال

(5) ہمیں بے نماز رشتے داروں سے کیا سلوک کرنا چاہیے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے خاوند کا ایک بھائی ہے جو کبھی کبھار ہی نماز پڑھتا ہے، جب کہ میں اپنے خاوند کے خاندان کے ساتھ ہی رہتی ہوں۔ جماعت کھڑی ہونے کے باوجود وہ لوگ اس کی مجلس میں بیٹھے رہتے ہیں۔ اس صورت میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟ میں اسے سمجھانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہوں، تو کیا اس صورت میں مجھے گناہ ہو گا؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر وہ شخص نماز نہیں پڑھتا تو اس سے قطع تعلق ضروری ہے۔ اس کے تائب ہونے تک نہ تو اسے سلام کہیں اور نہ ہی اس کے سلام کا جواب دیں۔ کیونکہ ترک نماز بڑا کفر ہے، اگرچہ وہ اس کے وجوب کا انکار نہ ہی کرے۔ یہی قول اقرب الی الصواب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

(إِنَّ الْعَهْدَ الَّذِي بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمُ الصَّلاَةُ، فَمَنْ تَرَكَهَا فَقَدْ كَفَرَ) (سنن ترمذی رقم 2623، سنن نسائی، سنن ابن ماجه رقم 1079، مسند احمد 5؍346، مستدرك الحاکم 1؍7، سنن الدارمی، السنن الکبریٰ للبیہقی 3؍366، مصنف ابن ابی شیبه 11؍34 و صحیح  ابن حبان ، رقم 1454)

’’ ہمارے اور ان کفار کے درمیان نماز کا عہد ہے، پس جس نے اسے ترک کیا اس نے یقینا  کفر کیا ۔‘‘

نیز آپ کا ارشاد مبارک ہے:

( بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ وَالشِّرْكِ تَرْكُ الصَّلَاةِ) (صحیح مسلم)

’’ مسلمان اور کفر و شرک کے درمیان حد فاصل نماز ہے ۔‘‘

اگر وہ شخص نماز کے وجوب کا منکر ہے تو وہ علماء کے اجماع کی رو سے کافر ہے۔ اس کے گھر والوں پر واجب ہے کہ اسے سمجھائیں اور اس سے بہت جلد توبہ کروائیں، اگر وہ توبہ نہ کرے تو اس سے تعلقات ختم کر دیں اور اس کا مقدمہ شرعی حکمران کے سامنے پیش کرنا ضروری ہے، تاوقتیکہ وہ توبہ کرے۔ اگر وہ توبہ کر لے تو بہتر، بصورت دیگر قتل کر دیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ)  (التوبہ 9؍5)

’’ اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو ان کا راستہ چھوڑ دو ۔‘‘

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

(نُهِيتُ عَنْ قَتْلِ الْمُصَلِّينَ)

’’ مجھے نمازیوں کے قتل سے روک دیا گیا ہے ۔‘‘

یہ اس امر کی دلیل ہے کہ بے نماز کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ اگر وہ شرعی عدالت کے سامنے توبہ نہیں کرتا تو اس کے قتل سے کوئی چیز مانع نہیں۔شیخ ابن باز

ھٰذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ برائے خواتین

عقیدہ  ،صفحہ:42

محدث فتویٰ

تبصرے