السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
شيعہ ہميشہ یہ دعوى كرتے ہيں كہ نو اور دس محرم كو ہم جو كچھ كرتے ہيں وہ سیدنا حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے ساتھ محبت كى دليل ہے، اور ايسے عمل كرنے ميں كوئى حرج نہيں يہ بالكل ايسے ہى ہے جيسے يعقوب عليہ السلام نے اپنے بیٹے یوسف کی گمشدگی پر (یآسفی علی یوسف) كہا تھا:۔ برائے مہربانى آپ يہ بتائيں كہ قرآن و سنت کی روشنی میں سينہ كوبى اور ماتم كرنا جائز ہے يا نہيں۔ ؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!عاشوراء ميں شيعہ حضرات جو ماتم و سينہ كوبى كرتے ہيں، اور اپنے آپ كو زنجيروں اور چھرياں وغيرہ مارتے ہيں، اور تلواروں كے ساتھ اپنے سر زخمى كرتے اور خون نكالتے ہيں دين اسلام ميں اس كا کوئی تصور نہیں ہے، بلكہ يہ عمل اسلامى تعليمات كے سرا سر منافى ہے. نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كرنے سے منع فرمايا ہے، اور اپنى امت كے ليے ايسى كوئى چيز مشروع نہيں فرمائى اور نہ ہى اس ماتم كے قريب بھى كچھ مشروع كيا ہے كہ اگر كوئى عظيم مقام و رتبہ والا شخص فوت ہو جائے يا كوئى شہيد ہو جائے تو اس كے ماتم ميں ايسى خرافات كى جائيں. نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں كئى ایک كبار صحابہ كرام كى شہادت ہوئى اور آپ صلى اللہ عليہ وسلم ان كى موت پر غمزدہ بھى ہوئے مثلا حمزہ بن عبد المطلب اور زيد بن حارثہ اور جعفر بن ابى طالب اور عبد اللہ بن رواحہ ليكن اس كے باوجود نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا كوئى عمل نہيں كيا جو شيعہ حضرات كرتے ہيں، اور اگر يہ كام خير و بھلائى ہوتى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس ميں ہم سے سبقت لے جاتے. اور پھر يعقوب عليہ السلام نے سينہ كوبى نہيں كى، اور نہ ہى اپنے چہرے كو زخمى كيا، اور نہ خون بہايا، اور نہ ہى اس دن كو جس ميں يوسف عليہ السلام گم ہوئے تھے تہوار بنايا اور نہ ہى اس روز كو ماتم كے ليے مختص كيا، بلكہ وہ تو اپنے پيارے اور عزيز بيٹے كو ياد كرتے اور اس كى دورى سے پريشان و غمزدہ ہوتے تھے، اور يہ ايسى چيز ہے جس كا كوئى بھى انكار نہيں كر سكتا اور نہ ہی اس کو روک سكتا ہے، بلكہ ممانعت و برائى تو اس عمل ميں ہے جو جاہليت كے امور بطور وراثت لے كر اپنائے جائيں جن سے اسلام نے منع كر ديا ہو. بخارى و مسلم ميں عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ’’لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَطَمَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ‘‘( صحيح بخارى حديث نمبر ( 1294 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 103) " جس نے بھى رخسار پيٹے اور گريبان چاک كيا اور جاہليت كى آوازيں لگائيں وہ ہم ميں سے نہيں ہے " چنانچہ يوم عاشوراء كے دن شيعہ حضرات جو غلط كام كرتے ہيں اس كے دين اسلام ميں كوئى دليل نہيں ملتى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ ميں سے كسى ایک كو بھى اس كى تعليم نہيں دى، اور نہ ہى كسى صحابى يا كسى دوسرے كى موت پر ايسے اعمال كيے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موت پر صحابہ كرام نے بھى ايسا نہيں کیا حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى موت كى مصيبت تو حسين رضى اللہ تعالى كى موت سے بھى زيادہ ہے. حافظ ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں: " ہر مسلمان كو چاہيے كہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے قتل ہونے پر غمزدہ ہو،كيونكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ مسلمانوں كے سردار اور علماء صحابہ كرام ميں سے تھے اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے نواسے اور آپ كى اس بيٹى كى اولاد ميں سے ہیں جو سب بيٹيوں سے افضل تھى، اور پھر حسين رضى اللہ تعالى عنہ عابد و زاہد اور سخى و شجاعت و بہادرى كا وصف ركھتے تھے. ليكن شيعہ حضرات جو كچھ كرتے ہيں اور جزع و فزع اور غم كا اظہار جس ميں اكثر طور پر تصنع و بناوٹ اور رياء ہوتى ہے ان كا يہ عمل اچھا نہيں، حالانكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے والد على رضى اللہ تعالى عنہ تو حسين سے افضل تھے انہيں شہيد كيا گيا ليكن وہ اس كے قتل ہونے پر ماتم نہيں كرتے جس طرح وہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے قتل ہونے والے دن ماتم كرتے ہيں. كيونكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے والد على رضى اللہ تعالى عنہ كو چاليس ہجرى سترہ رمضان المبارک جمعہ كے روز اس وقت قتل كيا گيا جب وہ نماز فجر كى ادائيگى كے ليے جا رہے تھے، اور اسى طرح اہل سنت كے ہاں عثمان رضى اللہ تعالى عنہ على رضى اللہ تعالى عنہ سے افضل ہيں انہيں محاصرہ كر كے ان كے گھر ميں چھتيس ہجرى ماہ ذوالحجہ كے ايام تشريق ميں شہيد كيا گيا، اور انہيں رگ رگ كاٹ كر ذبح كيا گيا، ليكن لوگوں نے ان كے قتل كے دن كو ماتم نہيں بنايا. اور اسى طرح عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ جو كہ عثمان اور على رضى اللہ تعالى عنہما سے افضل ہيں انہيں نماز فجر پڑھاتے ہوئے محراب ميں قرآن مجيد كى تلاوت كرتے ہوئے شہيد كيا گيا ليكن لوگوں نے ان كى موت كے دن كو ماتم كا دن نہيں بنايا. اور اسى طرح ابو بكر صديق رضى اللہ تعالى عنہ ان سے افضل تھے اور لوگوں نے ان كى موت كے دن كو ماتم والا دن نہيں بنايا، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تو دنيا و آخرت ميں اولاد آدم كے سردار ہيں آپ كو بھى اسى طرح قبض كيا گيا اور فوت كيا گيا جس طرح پہلے انبياء كو فوت كيا گيا، ليكن كسى ایک نے بھى ان كى موت كو ماتم نہيں بنايا، اور وہ ان رافضى جاہلوں كى طرح كريں جس طرح وہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كے قتل ہونے كے دن خرافات كرتے ہيں... اس طرح كى مصيبتوں كے وقت سب سے بہتر وہى عمل ہے جو حسين رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے انہوں نے اپنے نانا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ’’ما من مسلم يصاب بمصيبة فيتذكرها وإن تقادم عهدها فيحدث لها استرجاعا إلا أعطاه الله من الأجر مثل يوم أصيب بها‘‘" جس كسى مسلمان كو بھى كوئى مصيبت پہنچى ہو اور وہ مصيبت ياد آئے چاہے وہ پرانى ہى ہو چكى ہو تو وہ نئے سرے سے دوبارہ ’’انا للہ و انا اليہ راجعون‘‘ پڑھے تو اللہ تعالى اسے اس مصيبت كے پہنچنے والے دن جتنا ہى اجر و ثواب عطا كرتا ہے " اسے امام احمد اور ابن ماجہ نے روايت كيا ہے " انتہى ديكھيں: البدايۃ والنھايۃ ( 8 / 221 ). اور ایک مقام پر لكھتے ہيں: " چوتھى صدى ہجرى كے آس پاس بنو بويہ كے دور حكومت ميں رافضى شيعہ حضرات اسراف كا شكار ہوئے اور بغداد وغيرہ ميں يوم عاشوراء كے موقع پر ڈھول پيٹے جاتے اور راستوں اور بازاروں ميں ريت وغيرہ پھيلا دى جاتى اور دكانوں پر ٹاٹ لٹكا ديے جاتے، اور لوگ غم و حزن كا اظہار كرتے اور روتے، اور ان ميں سے اكثر لوگ اس رات پانى نہيں پيتے تھے تا كہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى موافقت ہو؛ كيونكہ وہ پياسے قتل ہوئے تھے. پھر عورتيں چہرے ننگے كر كے نكلتيں اور اپنے رخسار پيٹتيں اور سينہ كوبى كرتيں ہوئى بازاروں سے ننگے پاؤں گزرتيں اور اسكے علاوہ بھى كئى ایک قبيح قسم كى بدعات اور شنيع خواہشات اور اپنى جانب سے ايجاد كردہ تباہ كن اعمال كرتے، اور اس سے وہ حكومت بنو اميہ كو برا قرار ديتے كيونكہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ ان كے دور حكومت ميں قتل ہوئے تھے. ليكن اہل شام كے نواصب نے شيعہ و رافضيوں كے برعكس كام كيا، وہ يوم عاشوراء ميں دانے پكا كر تقسيم كرتے اور غسل كر كے خوشبو لگا كر بہترين قسم كا لباس زيب تن كرتے اور اس دن كو تہوار اور عيد بنا ليتے اور مختلف قسم كے كھانے تيار كر كے خوشى و سرور كا اظہار كرتے، ان كا مقصد رافضيوں كى مخالفت اور ان سے عناد ظاہر كرنا تھا " انتہى ديكھيں: البدايۃ والنھايۃ ( 8 / 220 ). جس طرح اس دن ماتم كرنا بدعت ہے اسى طرح اس دن خوشى و سرور ظاہر كرنا اور جشن منانا بھى بدعت ہے، اسى ليے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: " حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى شہادت كے سبب ميں شيطان نے لوگوں ميں دو قسم كى بدعات ايجاد كروائيں ایک تو يوم عاشوراء كے دن ماتم كرنا اور غم و حزن كا اظہار اور سينہ كوبى كرنا اور مرثيے پڑھنا... اور دوسرى بدعت خوشى و سرور كا اظہار كرنا... ان لوگوں نے غم و حزن اور ماتم ايجاد كيا اور دوسروں نے اس كے مقابلہ ميں خوشى و سرور كى ايجاد كى اور اس طرح وہ يوم عاشوراء كو سرمہ ڈالنااور غسل كرنا اور اہل و عيال كو زيادہ كھلانا پلانا اور عادت سے ہٹ كر انواع و اقسام كے كھانا تياركرنا جيسى بدعت ايجاد كر لى، اور ہر بدعت گمراہى ہے آئمہ اربعہ وغيرہ دوسرے مسلمان علماء نے نہ تو اسے اور نہ ہى اس كو مستحب قرار ديا ہے " انتہى (ماخوذ از: منھاج السنۃ ( 4 / 554 ) مختصرا ) يہاں اس پر متنبہ رہنا چاہيے كہ ان غلط قسم كے اعمال كى پشت پناہى دشمنان اسلام كرتے ہيں تا كہ وہ اپنے گندے مقاصد تک پہنچ سكيں اور اسلام اور مسلمانوں كى صورت كو مسخ كركے دنيا ميں پيش كريں، اسى سلسلہ ميں موسى الموسوى اپنى كتاب " الشيعۃ و التصحيح " ميں لكھتے ہيں: " ليكن اس ميں كوئى شک و شبہ نہيں كہ حسين رضى اللہ تعالى عنہ كى شہادت كے سوگ ميں دس محرم كے دن سينہ كوبى كرنا اور سروں پر تلواريں مار كر سر زخمى كرنا اور زنجير زنى كرنا ہندوستان سے انگريز دور حكومت كے وقت ايران اور عراق ميں داخل ہوا، اور انگريزوں نے شيعہ كى جہالت اور امام حسين رضى اللہ تعالى عنہ سے محبت كو موقع غنيمت جانتے ہوئے انہيں سروں پر بيرنگ مارنے كى تعليم دى، حتى كہ ابھى قريب تک طہران اور بغداد ميں برطانوى سفارت خانے ان حسينى قافلوں كى مالى مدد كيا كرتے تھے جو اس دن سڑكوں پر نكالنے جاتے، اس كے پيچھے غرض صرف سياسى اور انگريزى استعمار و غلبہ تھا تا كہ وہ اس كو بڑھا كر اس كى آبيارى كريں، اور اس سے بھى بڑھ كر يہ كہ وہ اپنے معاشرے اور آزاد ميڈيا كے سامنے ایک معقول بہانا مہيا كرنا چاہتے تھے جو برطانيہ كا ہندوستان اور دوسرے اسلامى ملكوں ميں قبضہ كى مخالفت كرتے تھے. اور وہ يہ ظاہر كرنا چاہتے تھے كہ ان ممالک ميں بسنے والے وحشى ہيں جو تربيت كے محتاج ہيں كہ انہيں جہالت اور وحشيوں كى وادى سے نكال كر ترقى يافتہ معاشرہ بنايا جائے، اس طرح يورپى اور انگريزي روزناموں اور ميگزينوں ميں تصاوير شائع كى جاتيں كہ ہزاروں افراد كے قافلے عاشوراء كے موقع پر زنجير زنى سے ماتم كر كے بازاروں ميں گھوم رہے ہيں اور سروں پر تلوار اور بيرنگ سے خون نكالا گيا ہے. اس طرح يہ استعمارى تھنک ٹينک ان ممالک ميں قبضہ اور استعمار كو ايک انسانى واجب بنا كر پيش كرتے، اور كہتے كہ ان ممالک كى يہ ثقافت ہے اس ليے اسے ترقى كى ضرورت ہے اور كہا جاتا ہے كہ انگريز قبضہ كے وقت عراق كے وزير اعظم " ياسين ہاشمى " نے جب لندن كا دورہ كيا اور انگريزوں سے وائسرائے كے نظام كو ختم كرنے كا كہا تو انگريز كہنا لگا: ہم عراق ميں عراقى لوگوں كى مدد كے ليے ہيں تا كہ وہ سعادت حاصل كريں اور بربريت سے نكلنے كى نعمت حاصل كر سكيں تو اس بات سے " ياسين ہاشمى " غصہ ميں آيا اور ناراض ہو كر مذاكرات كے كمرہ سے نكل آيا، ليكن انگريز نے بڑى چالاكى دكھاتے ہوئے اس سے معذرت كى اور بڑے احترام سے اسے عراق كے متعلق ايک فلم ديكھنے كى درخواست كى جس ميں حسينى قافلے نجف و كربلاء اور كاظميہ كى سڑكوں پر سينہ كوبى اور زنجير زنى كرتے ہوئے دكھايا گيا تھا، گويا كہ انگريز اسے يہ كہنا چاہتے تھے: كيا يہ قوم اتنى ہى گرى ہوئى ہے جس ميں ذرا بھى ترقى كى رمق نہيں جو اپنے ساتھ يہ سلوک كر رہى ہے ؟! " انتہى هذا ما عندي والله اعلم بالصوابفتاویٰ علمائے حدیثکتاب الصلاۃجلد 1 |