سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(262) عورت کا حالتِ احرام میں موزے یا دستانے پہننا

  • 22027
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1224

سوال

(262) عورت کا حالتِ احرام میں موزے یا دستانے پہننا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عورت حالت احرام میں موزے اور دستانے پہن سکتی ہے؟اور کیا اس کے لیے احرام کے کپڑے بدلنا جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عورت کے لیے افضل یہی ہے کہ حالت احرام میں موزے پہ نے رہے کیونکہ اس میں زیادہ پردہ ہے، اور اگر اس کے کپڑے ڈھیلے اور تمام بدن کو ڈھانکنے والے ہوں تو وہی کپڑے کافی ہیں۔اگر احرام کے وقت موزے پہنے تھی اور بعد میں اتار دئیے تو بھی کوئی حرج نہیں جیسے کہ کوئی آدمی احرام کے وقت توجوتے پہنتا ہے لیکن بعد میں اتار دیتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن عورت حالت احرام میں دستانے نہیں پہنے گی اور نہ ہی چہرے کے لیے نقاب یا برقعہ استعمال کرے گی۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے، ہاں اگر اس کے سامنے کوئی غیر محرم آجائے تو چہرے پر نقاب ڈال لینا ضروری ہے۔ اسی طرح طواف اور سعی کی حالت میں غیر محرم کے سامنے آنے کی صورت میں چہرہ پر نقاب ڈالنا ہو گا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا   نے فرمایا:کہ قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ہوتے تھے جب قافلے والے ہمارے سامنے پہنچتے تو ہم میں سے ہر کوئی اپنے سر سے نقاب چہرہ پر گرا لیتی تھی، اور جب وہ آگے بڑھ جاتے تو ہم اپنا چہرہ کھول لیتے۔

اس حدیث کو ابو داؤد  رحمۃ اللہ علیہ  اور ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ  نے روایت کیا ہے۔

مردوں کے لیے چمڑے کے موزے پہننا جائز ہے۔ اگرچہ کٹے ہوئے نہ ہوں جمہور کی رائے یہ ہے کہ ان کا اوپر سے کاٹنا ضروری ہے۔ لیکن صحیح رائے یہی ہے کہ جوتے نہ ہونے کی حالت میں ان کا کاٹنا ضروری نہیں۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے میدان عرفہ میں لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور فرمایا:"جس کے پاس تہبند نہ ہو وہ پائجامہ پہن لے اور جس کے پاس جوتے نہ ہوں وہ موزے پہن لے۔’’یہ حدیث متفق علیہ ہے اور اس میں آپ نے کاٹنے کا حکم نہیں دیا۔اس سے ثابت ہوا کہ موزے کا بالائی حصہ کاٹ دینے کا حکم منسوخ ہو گیا۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

حج بیت اللہ اور عمرہ کے متعلق چنداہم فتاوی صفحہ:332

محدث فتویٰ

تبصرے