السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا حائضہ عورت کا مسجد میں داخل ہو نا جائز ہے؟(فتاوی المدینہ:23)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت کے لیے یہ جائز ہے۔ سلبی دلیل کے ساتھ اور دوسری ایجابی دلیل کے ساتھ۔
سلبی دلیل : سلبی دلیل کا مطلب ہے کہ اس سے مانع دلیل کا وجود نہیں ہے کہ جو مسجد میں داخل ہونے سے مانع ہو اور یہ اصول کے قاعدہ کو بھی شامل ہے کہ"الأصل في الأشياء الإباحة"کہ اشیاء میں اصل اباحت ہے اور کسی چیز سے منع ہونا یہ خاص دلیل کا مطالبہ کرتا ہے۔ مطلق طور پر ایسی کوئی صحیح حدیث نہیں آئی کہ جس میں حائضہ عورت کے مسجد میں داخل ہونے سے منع ہو۔
ایجابی دلیل: عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث ہے’’صحیح بخاری‘‘ میں جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہ حجۃ الوداع کے موقعہ پر مکہ کے قریب "سرف" نامی مقام پر عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حائضہ ہو گئی۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے تو یہ رو رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ما لكِ تبكين ؟ أنفستِ ؟ " "تجھے کیا ہو گیا؟ کیا تو حائضہ ہو گئی ہے؟"
پھر فرمانے لگے:
"إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ ، فَاقْضِي مَا يَقْضِي الْحَاجُّ ، غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي وَلَا تُصَلِّي"
’’ کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے تمام آدم کی بیٹیوں پر لکھ دیا ہے۔توتو وہی کر کہ جو حاجی کرتے ہیں۔ صرف طواف نہ کراور نماز نہ پڑھنا‘‘
تو یہ نص ہے کہ حائضہ عورت کے لیے مسجد میں داخل ہونا جائز ہے بلکہ مسجد حرام میں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے مباح قرار دیا جو کچھ حاجی کرتے ہیں۔ تیرے لیے بھی جائز ہے۔ مسجد میں داخل ہونا طواف اور نماز سمیت کیونکہ حاجی یہ سب کام کرتے ہیں۔ ہاں البتہ یہ اسے مستثنیٰ قراردیا اس سے کہ حاجی کریں طواف نہ کرے اور نماز نہ پڑھے۔تو حائضہ مسجد میں داخل ہو سکتی ہے مصحف پڑھ سکتی ہے۔
جو اس کے برخلاف دعوی کرے اس پر لازم ہے کہ دلیل پیش کرے۔ تو اس پر لازم ہے ان چیزوں کو حرام قرار دینے والی دلیل لائے اور ثابت کرے یہ حرمت اس حلت کے بعد کی ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب