سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(228) عورتوں کی دبر میں جماع کرنے کا حکم

  • 21993
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2107

سوال

(228) عورتوں کی دبر میں جماع کرنے کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  نے کچھ روایات ذکر کی ہیں ان لوگوں کے بارے میں کہ جو عورتوں کو دبر میں آتے ہیں ان کے حکم کے متعلق ساتھ ساتھ تمام اسانید اور ان پر جو کلام ہے وہ بھی ذکر کیا ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام آئمہ نے عورتوں کے دبر میں آنے کے بارے میں ان روایات پر کلام کیا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  ،نسائی رحمۃ اللہ علیہ  اور دیگر آئمہ نے کہا کہ اس کے بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔ جبکہ ابن عمر،نافع ، مالک، اور دیگر کچھ دوسرے لوگوں سے عورتوں کے دبر میں آنے کا صحیح ہونا منقول ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ خود اس طرف مائل ہوئے ہیں کہ تمام طرق کی بنا پر نہی درست ہے تو جب کچھ بھی جواز کے متعلق ثابت نہیں ہے تو یہ بات کیوں تسلیم نہیں کی گئی؟(فتاوی المدینہ:33)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ان کا قول اس لیے درست نہیں ہے کہ جس چیز کے بارے میں یہ لوگ بات کرتے ہیں وہ صرف کچھ احادیث کے مفردات ہیں کہ جو اس مسئلہ کے بارے میں آئے ہیں۔

حافظ ابن حجر  رحمۃ اللہ علیہ  حدیث میں امیر المؤمنین ہیں۔ ان کا مثل موجود نہیں ہے تو انھوں نے اس معنی کی تمام احادیث اور طرق کو ایک جگہ جمع کیا ہے اور ان پر علوم حدیث کے قواعد کے مطابق قواعد لگائے بھی ہیں۔ تو ان کے لیے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ بہت دشوار غلطی ہے یہ کہنا کہ اس کے متعلق کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔ جی ہاں انفرادی طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس کے متعلق کچھ ثابت نہیں ہے۔ مجموعی طور پر اگر ان تمام ادلہ کو جمع کیا جائے تو یقینی طور پہ ان سب کا اس بات پہ اتفاق ہو جاتا ہے کہ عورت کو اپنی اصل جگہ سے ہٹ کر کہیں اور آنا حرام ہے۔

﴿نِساؤُكُم حَرثٌ لَكُم فَأتوا حَرثَكُم أَنّىٰ شِئتُم...﴿٢٢٣﴾... سورة البقرة

"یعنی جیسا تم چاہو تو یہ آیت بھی اس حکم میں قوت پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح سےاحادیث بھی اس کی تفسیر کرتی ہیں۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے پوچھا گیا کہ کیا آدمی کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی کوجیسے چاہے آئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جی ہاں لیکن ایک سوراخ میں آئے۔

  ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

احادیث کے علل اور روایات پر نقد کا بیان    صفحہ:298

محدث فتویٰ

تبصرے