سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(197) حدیث کو اس کی بناء پر صحیح قرار دینا

  • 21962
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1361

سوال

(197) حدیث کو اس کی بناء پر صحیح قرار دینا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا کسی حدیث  کو اس بناء پر صحیح قرار دیا جا سکتا ہے کہ یہ تجربہ کے عین مطابق ہے، یا فلاں کو اس کی صحت کا کشف ہوا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(یہ بات درست نہیں)اگرچہ بعض علماء نے لکھا ہے: مثلاً سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے مرفوع روایت کی گئی ہے کہ ’’جب کسی کا جانور بیانان میں گم ہوجائے تو وہ آواز لگائے۔ اے اللہ کے بندو!اسے میرے لیے روک لو۔ اے اللہ کے بندو! اسے میرے لیے روک لو۔پس زمین میں جو بھی حاضر ہو گا وہ اسے روک دے گا۔‘‘

یہ روایت ضعیف ہے(الضعیفۃ :655)

حافظ سخاوی ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’اس کی سند ضعیف ہے لیکن امام نووی  رحمۃ اللہ علیہ  کا کہنا ہے کہ انھوں نے اور بعض اکابر شیوخ نے اس کا تجربہ کیا ہے۔

قلت:عبادات تجربوں سے حاصل نہیں کی جاتی۔خصوصاً جبکہ معاملہ ایسے غیبی امور سےمتعلق ہو۔لہٰذا تجربہ کی وجہ سے اس حدیث کی تصحیح کی میلان جائز نہیں اور یہ کیسے درست ہو سکتا ہے جبکہ بعض لوگوں نے مشکلات و مصائب میں مردے سے مدد مانگنا جو کہ خالص شرک ہے کہ دلیل اس حدیث کو بنایا ہے۔

سب سے عمدہ بات امام الہروی رحمۃ اللہ علیہ  نےذم الکلام 4/168/1"میں فرمائی ہے۔

"امام عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ  ایک دفعہ کسی سفر میں راستہ بھول گئے۔ اور انہیں یہ بات پہنچی تھی کہ کوئی بیابان میں راہ بھول گیا تو اس نے سدا لگائی۔

اے اللہ کے بندو! میری مدد کرو۔ تو اس کی مدد کی گئی۔

ابن مبارک فرماتے ہیں: میں اس کی سند کی تلاش میں لگ گیا۔ امام الہروی رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:

عبداللہ بن المبارک رحمۃ اللہ علیہ  نے ایسی دعا کرنا جائز نہ سمجھا جس کی سندانہیں معلوم نہیں۔

قلت:اسی طرح اتباع ہوئی ہے۔

اور اس جیسی عمدہ بات امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ  نے "تحفۃ الذاکرین’’ص140‘‘ میں اس مناسبت سے ارشاد فرمائی کہ:

’’سنت فقط تجربہ سے ثابت نہیں ہوتی اور کسی کام کو یہ سوچ کر کر نے والا یہ سنت ہے،اسے بدعتی ہونے سے نہیں بچا سکتا۔‘‘

اور قبولیت دعا سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قبولیت کا سبب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے(بلکہ)بسااوقات اللہ تعالیٰ سنت کو ذریعے بنائے بغیر بھی دعا کو قبول کر لیتا ہے۔کہ وہ ارحم الراحمین ہے اور بسااوقات قبولیت دعا بتدریج ہوتی ہے۔

اسی طرح بذریعہ کشف بھی تصحیح حدیث درست نہیں۔ علامہ شعرانی’’المیزان ‘‘(1/28) میں موضوع حدیث

"أصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم"

 "میرے صحابی ستاروں کی مانند ہیں۔ تم ان میں جس کی بھی پیروی کرو گے۔

ہدایت پاؤ گے۔"(الضعیفہ :58)

کے متعلق لکھا :

"یہ حدیث اگر چہ محدثین کے ہاں اس پر کلام ہے اہل کشف کے نزدیک صحیح ہے۔"

تو ان کا یہ قول باطل فضول ناقابل التفات ہے۔ اس لیے کہ بذریعہ کشف حدیث کو صحیح  قرار دینا صوفیاء کی ناپسندیدہ بدعت ہے۔ اس پر اعتماد بہت سی باطل بے اصل احادیث کی تصحیح کا باعث بنے گا جیسے حدیث مذکورہ۔ اس لیے  کہ کشف اپنی عمدہ حالت میں اگر صحیح ہوتو ایک رائے سوچ کی مثل ہے جو غلط اور صحیح ہو سکتی ہے۔

خصوصاً اس وقت جب اس میں خواہشات کا دخل نہ ہو۔

ہم اللہ تعالیٰ سے خواہشات اور اللہ کی ہر ناپسندیدہ چیز سے سلامتی کا سوال کرتے ہیں۔(نظم الفرائد1/197۔195)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

اصول حدیث علل حدیث اور اسماء رجال کا بیان    صفحہ:275

محدث فتویٰ

تبصرے