سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(183) دینی مجالس کی فلمیں بنانا

  • 21948
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 837

سوال

(183) دینی مجالس کی فلمیں بنانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فلموں کی طرح دینی مجالس کی فلم وغیرہ بنانے کا کیا حکم ہے؟فتاوی الامارات:116)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس طرح کی مثالی طور پر فلمیں بنانا کئی اسباب کی وجہ سے ممنوع ہے،

پہلا سبب: کہ بے شک یہ کفار کی تقلید ہے۔ کفار کا طریقہ ان کے ہی لائق ہے، مسلمانوں کے لائق نہیں ہے۔ کیونکہ کفار سمجھتے ہیں کہ یہ محرکات اور اسباب ان کی طرف خیرلوٹاتے ہیں۔ تو ان کے پاس ایسی شریعت بھی نہیں ہے جیسی ہمارے پاس ہے الحمد للہ قرآن کی ایک ہی آیت اس طرح کی کئی فلمی سین سے ہمیں کافی ہے۔ وہ ایسی امت ہے کہ ان کے ہاں نہ کوئی  چیز حرام ہے نہ حلال ہے۔ تو کیسے ہم ان سے ان کا منہج اور طریقہ لے سکتے ہیں؟تو اس طرح کے یہ وسائل ان کے لیے حلال ہیں ہمارے لیے حلال نہیں کیونکہ ہمارے پاس ان سے بہتر چیز موجود ہے جس طرح کہ جابر بن عبد اللہ کی حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک دن عمر کے ہاتھ میں تورات کا صحیفہ دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے؟ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا یہ تورات کا صحیفہ ہے اور میرے لیے یہود میں سے ایک آدمی نے لکھ کر بھیجا ہے۔تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

" أَمُتَهَوِّكُونَ أَنْتُمْ كَمَا تَهَوَّكَتِ الْيَهُودُ والنَّصَارَى ؟ لَقَدْ جِئْتُكُمْ بِهَا بَيْضَاءَ نَقِيَّةً ، وَلَوْ كَانَ مُوسَى حَيًّا مَا وَسِعَهُ إِلا اتِّبَاعِي "

کیا تم اس میں گھسنے والے ہو کہ جس طرح یہود و نصاریٰ گھسے ہیں ؟ موسی  علیہ السلام  اگر زندہ ہوتے تو وہ بھی میری اتباع کرتے۔

دوسرا سبب:اس طرح کے فلم کے سینوں میں جھوٹی بات شامل ہو سکتی ہیں کہ جن کا تاریخ اسلامی اور سیرت سے دور کا واسطہ نہیں ہوتا۔

تیسرا سبب :ان فلموں میں کبھی کبھار مردوں کو عورتوں سے مشابہت ہوتی ہے۔اور کبھی اس کے برعکس اسی طرح کبھی کبھار عورتوں مردوں کا اس میں اختلاط بھی ہوتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے۔ آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ سفر میں جارہے تھے تو ایک درخت کے پاس سے ان کا گزرہوا تو مشرک اس درخت پر اپنا اسلحہ لٹکایا کرتے تھے۔ تو صحابہ نے کہا:اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہمارے لیے بھی ذات انواط بتائیں کہ جس طرح ان کے لیے بھی ذات انواط ہے۔

تو یہودیوں نے موسیٰ  علیہ السلام  سے مطالبہ کیا کہ ان کے لیے ایک بت بنایا جائے کہ جس کی وہ پوجا کریں۔ صحابہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے مطالبہ کیا کہ ان کے لیے کوئی درخت مختص کیا جائے کہ جس پروہ اپنا اسلحہ لٹکائیں کہ جس طرح مشرکین کے لیے ہے۔ تو بہر حال نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے لفظی مشابہت کا بھی انکار کیا۔ مسلمانوں کی کفار کے ساتھ مشابہت جڑ کاٹ دی۔ پھر کونسی چیز ہے کہ جو کفار کو اس طرح کی فلموں پر ابھارتی ہے؟ کیونکہ ان کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے کہ جو ان کی روحانی غذا کا سبب بن سکے کہ جس طرح ہمارے پاس روحانی غذا ہے۔ ان وسائل کو ہم ان سے لیں اور استعمال کریں۔ یہ ایک الگ چیز ہے اور اسی طرح گاڑیاں اور جہاز اور دوسری چیزیں ان سے لینا یہ الگ چیز ہے۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان:

"عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ "

کے تحت داخل نہیں ہے۔ اگر ٹیلی ویژن میں ضروری چیزیں پیش کی جائیں تو یہ وسیلہ جائز ہے اور اگر ٹیلی ویژن پر غیر ضروری چیزیں دکھائی جائیں تو یہ امر مختلف فیہ ہے۔

ہم پر لازم نہیں کہ ہم فرضی واقعات بنا کر اس کے خلاف پیش کریں۔ آج کل تو مثلاً عالم عربی کے اندر ٹیلی ویژن پر بہت ساری اچھی اسلامی چیزیں دکھائی جاتی ہیں اور جو دینی مجلسیں ہوتی ہیں وہ پورے عالم کو دکھائی جاتی ہیں ۔ ٹیلی ویژن پر حج کے مناسک دکھائے جائیں لیکن علماء میں سے کسی ایک عالم دین کو منظر پر دکھایا جائے تاکہ لوگ حج کے مناسک سیکھ سکیں بلکہ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ کسی ایک عالم دین کو نماز پڑھتے ہوئے دکھایا جائے تاکہ لوگ صحیح نماز سیکھ سکیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

حلال کھیل اور حرام کھیل کا بیان    صفحہ:262

محدث فتویٰ

تبصرے