السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا حج تمتع کرنے والا قربانی نہ پانے کی صورت میں مدینہ میں روزے رکھ سکتا ہے؟(فتاوی المدینہ:17)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو شخص مدینہ منورہ آیا ہے۔ یہ عمرہ کر کے آیا پھر مدینہ کی طرف آیا اس بناء پہ ہم کہتے ہیں کہ‘‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
﴿فَمَن تَمَتَّعَ بِالعُمرَةِ إِلَى الحَجِّ فَمَا استَيسَرَ مِنَ الهَدىِ...﴿١٩٦﴾... سورة البقرة
تو جس نے بھی حج کے مہینوں میں سے کسی مہینے میں عمرہ کیا تو اس پر یہ آیت صادق آتی ہے لیکن میں اسے ہر حج تمتع کرنے والے کو نصیحت کرتا ہوں کہ جو ہدی کی طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ روزے رکھنے میں جلدی نہ کرے بلکہ اگر 10 ذی الحجہ بھی ہو جائے اور اس کے پاس قربانی نہ ہو تو پھر تین دن کے روزے رکھے۔ یوم النحر کے بعد کہ جس کو ایام تشریق کہا جا تا ہےاور اس کا سبب یہ ہے کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں سے ایک روایت مروی ہے کہ:
"رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لِلْمُتَمَتِّعِ إِذَا لَمْ يَجِدِ الْهَدْيَ أَنْ يَصُومَ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ"
کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کرنے والے کو اجازت دی ہے کہ وہ ایام تشریق میں روزے رکھے۔
کیونکہ عین ممکن ہے کہ جس حج تمتع کرنے والے نے عمرہ کر لیا ہواور اس کے پاس قربانی نہ ہو تو کہیں سے اللہ تعالیٰ اسے قربانی میسر کروادے۔ باالغرض!اگر اس نے پہلے روزے رکھ لیے پھر قربانی کی طاقت پائی تو اس پر لازم ہے کہ وہ قربانی کرے۔ کیونکہ وہ اس کی طاقت رکھتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے روزے محفوظ رکھے۔ یوم النحر کے داخل ہونے تک تو پھر بھی اگر قربانی کی طاقت نہ پائے تو" "فَصِيَامُ ثَلاثَةِ أَيَّامٍ" تین دن کے روزے رکھنا شروع کردے حج کے دوران جب قربانی کا اس سے تقاضا کیا جا رہا ہو۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب