السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خطیب جب خطبہ کے لیے منبر پر آتا ہے تو مقتدی سامع اپنا رخ خطیب کی طرف کر سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سیدنا مطیع بن الحکم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
"كَانَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم إِذا قَامَ على الْمِنْبَر أَقبلنَا بوجوهنا إِلَيْهِ"
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب منبر پر چڑھ جاتے تو ہم اپنے چہرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر لیتے ۔‘‘ (الصحیحہ:208)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے "الصحیحہ"میں باب قائم کیا کہ:
" بَابُ يَسْتَقْبِلُ الْإِمَامُ الْقَوْمَ ، وَاسْتِقْبَالُ النَّاسِ الْإِمَامَ إِذَا خَطَبَ ، وَاسْتَقْبَلَ ابْنُ عُمَرَ وَأَنَسٌ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمُ –"
’’امام کا لوگوں کی طرف رخ کرنا اور امام کے خطیب کے وقت لوگوں کا امام کی طرف رخ کرنے کا بیان اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورانس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امام کی طرف رخ کیا۔‘‘
’’مصنف (امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ )نے حدیث سے ترجمہ الباب میں ذکر کردہ مسئلہ استنباط کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گردان کی گفتگو سننے کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کا بیٹھنا ان کی طرف دیکھنے کا بھی متقاضی ہے اور اس سے اس بات کی نفی نہیں ہوتی جو خطبہ میں قیام سے متعلق پہلے گزر چکی ہے۔اس لیے کہ اسے ہم اس پر محمول کریں گے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی بلند مقام پر بیٹھ کر گفتگو فرما رہے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔
جب یہ صورت حال خطبہ جمعہ کے علاوہ میں ہے تو خطبہ جمعہ میں تو اسے اختیار کرنا اولیٰ ہے۔ کیونکہ خطبہ کو سننے اور مکمل توجہ اس کی طرف دینے کی تاکید اس بارہ میں بیان ہوئی ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’امام کی طرف رخ کرنے کی حکمت یہ ہے کہ گفتگو مکمل توجہ سے سنی جا سکتی ہے اور اس کے کلام کو توجہ سے سننے سے امام کا ادب بھی ہوتا ہے۔ جب سامع اپنا چہرہ جسم دل امام کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اپنا ذہن حاضر کرتا ہے تو اس سے امام خطیب نصیحت بہتر سمجھ آتی ہے اور اس لیے تو خطبہ میں قیام مشروع ہے۔‘‘(نظم الفرائد:1/433۔432)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب