السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
"صَلَّى الْغَدَاةَ فِي جَمَاعَةٍ ثُمَّ قَعَدَ يَذْكُرُ اللَّهَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ" کیا اس حدیث سے مراد چاشت کی نماز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واللہ اعلم ظاہر اً تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد چاشت کی نماز ہے کیونکہ کسی حدیث سے الگ سے ذکر نہیں آیا کہ طلوع شمس کے بعد دو نمازیں ہیں۔ لیکن یہ والی حدیث اس حدیث کے ساتھ ٹکراتی ہے کہ جو عبد اللہ بن ابی اوفی سے"مسلم" میں مروی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"صلاة الأوَّابين حين تَرمَضُ الفِصالُ"
کہ صلاۃ الاوابین کا وقت وہ ہے کہ جب اونٹنیوں کے بچوں کے پاؤں جلنے لگیں۔
" فصال" فصیل کی جمع ہے اس سے مراد اونٹنی کا بچہ ہے۔ کیونکہ اونٹنی کے بچہ کے پاؤں اپنے ماں باپ کے پاؤں کی طرح سخت نہیں ہوتے ۔بلکہ اس کے پاؤں نرم ہوتے ہیں تو یہ بچہ جب باہر کی طرف نکلنے لگا تو جس ریت کو دھوپ لگ چکی ہو گی اس کی تپش کی وجہ سے اس کے پاؤں جلنے لگتے ہیں تو اگر ہم اس حدیث پر غور کریں کہ جب آدمی فجر کی نماز پڑھ کر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے جب تک کہ سورج نکل کر کچھ بلند نہ ہو جائے کہ جب دھوپ سخت ہو چکی ہوتی ہے اونٹنی کے بچے کے پاؤں ریت کی گرمی سے جلنے لگ جاتے ہیں۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب