السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا نماز عصر کے بعد نوافل ادا کیے جا سکتے ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ:
"ان النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كانَ لَا يَدَعُ رَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْفَجْرِ ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ "
’’بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے پہلے دورکعتیں اور عصر کے بعد دورکعتیں نہیں چھوڑ تے تھے۔(الصحیحہ:292)
امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسلاف کی ایک جماعت کا عمل صحیح سند سے روایت کیا ہے کہ وہ عصر کے بعد دورکعتیں ادا کیا کرتے تھے۔
ان میں ابو بردہ بن ابی موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ ،ابو الشعثاء رحمۃ اللہ علیہ ،عمرو بن میمون رحمۃ اللہ علیہ ، اسود بن یزید رحمۃ اللہ علیہ ، ابو وائل رحمۃ اللہ علیہ ،محمد بن المنتشر اور مسروق رحمۃ اللہ علیہ شامل ہیں۔
رہا سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اس شخص کو مارنا جو یہ رکعتیں پڑھتا تھا تو یہ سد ذریعہ سے متعلق سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اجتہادی معاملہ تھا۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ (2/25) کی ذکر کردہ دو روایات سے معلوم ہو تا ہے۔
"ایک مصنف عبدالرزاق (2/432)مسند احمد(4/100)طبرانی (5/260)میں ہے۔جسے علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ نے المجموع "(2/223)میں حسن قراردیا ہے۔
دوسری مسنداحمد(4/102)طبرانی کبیر(2/58)اورطبرانی اوسط (8848)میں ہے۔
اس کے بعد مجھے تیسری روایت جوان دونوں سے مضبوط ہے مل گئی کہ:
شریح فرماتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت کے بابت سوال کیا؟تو انھوں نے فرمایا:
’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر ادا کر کے دورکعتیں ادا کیا کرتے تھے۔‘‘
میں نے کہا:سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اس نماز کے ادا کرنے پر مارتے تھے اور منع کیا کرتے تھے؟(یہ کیوں؟)
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:
سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (خود)ان دورکعتوں کو ادا کرتے تھے اور وہ یہ جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انہیں ادا کیا ہے۔ لیکن قوم کے دیندار لوگ ناسمجھ ہیں وہ ظہر ادا کر کے پھر ظہر اور عصر کے مابین نماز پڑھتے ہیں اور عصر کی نماز ادا کر کے پھر عصر اور مغرب کے درمیان نماز پڑھتے ہیں۔ تو عمر نے ان کو مارا اور اس نے اچھا کیا۔ یہ روایت ابو العباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی مسند سراج" ق(146/1) میں ذکر کیا ہے۔
میں کہتا ہوں کہ اس کی سند صحیح ہے۔پہلے والے دونوں آثار کے لیے قوی شاہد ہے اور نص صریح ہے اور ان دو رکعتوں سے منع کرنا یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنی مرضی سے نہ تھا کہ جس طرح بہت سارے لوگوں کو یہ وہم ہوا ہے بلکہ یہ ان کے مستقل جاری رکھنے کی وجہ سے نماز کے بعد یا مکروہ وقت تک لیٹ کرنے کی وجہ سے منع کیا ہے۔مکروہ وقت سے مراد سورج کا زرد ہونا اور منع والی احادیث سے یہ وقت مراد ہے کہ جس میں نماز پڑھنے سے منع کیا ہے اور اس وقت میں نماز پڑھنے سے متعلق یہ بیان پہلے دو حدیثوں کےتحت گزرچکا ہے۔
جو بات پہلے گزری ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عصر کی نماز کے بعد دورکعتیں پڑھنا سنت ہے کہ جب ان کے ساتھ عصر کی نماز بھی پڑھی جائے۔ سورج کے زرد ہونے سے پہلے پہلے اور بے شک عمر کا مارنا ان رکعتوں کے پڑھنے پر یہ ان کا اجتہاد تھا کہ جس کی بعض صحابہ نے موافقت کی اور بعض نے مخالفت کی اور ان میں سے سر فہرست ام المؤمنین ہیں۔دونوں فریقوں کی موافقت کرنے والے ہیں۔ تو لہٰذا سنت کی طرف رجوع کرنا واجب ہے اور یہ سنت ام المؤمنین کی روایت سے صحیح ثابت ہے۔ عموم کے علاوہ کوئی حدیث ان کے معارض نہیں ہے اور عموم کے لحاظ سے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیثیں ہیں کہ جن کی طرف ابھی ابھی شارہ کیا ہے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ بھی موقف تھا جس طرح کہ بخاری(589)" میں روایت ہے۔
فرماتے ہیں میں نماز پڑھتا ہوں کہ جس طرح میرے دوسرے ساتھی نماز پڑھتے ہیں کسی کو نہیں روکتا۔ چاہے رات کو پڑھے یا دن میں پڑھے ۔ جتنی چاہے علاوہ اس کے کہ طلوع شمس اور غروب شمس کا لحاظ رکھے۔
ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی یہ موقف ہے۔ صحیح سند کے ساتھ "مصنف عبد الرزاق (2/433) میں ابن طاؤس عن ابیہ کی سند کے ساتھ مروی ہے کہ بے شک ابو ایوب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت سے پہلے عصر کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ جب حضرت عمر خلیفہ بنے تو انھوں نے چھوڑدیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوت ہو گئے پھر ابو ایوب یہ دو رکعتیں پڑھنے لگ گئے تو ان سے پوچھا گیا کہ یہ تم کیا کرتے ہو؟فرمانے لگے کہ عمر ان دونوں رکعتوں کےپڑھنے پر لوگوں کو مارتا ہے۔ ابن طاؤس فرماتے ہیں کہ میرے والد ان دورکعتوں کو نہیں چھوڑتے تھے یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہم اہل سنت کو یہ بات یاد کروائیں کہ سنتوں کو زندہ کرنا چاہیے اور بدعات کی بیخ کنی کرنی چاہیے۔تو جب بھی عصر کی نماز اس مشروع وقت میں پڑھیں تو یہ دورکعتیں بھی پڑھیں تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے ہم مصداق بن سکیں۔[1]
"مَنْ سَنَّ فِي الإِسْلامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا"(نظم الفرائد :1/404۔402)
[1] ۔عصر کے بعد دورکعت یا کوئی بھی نماز پڑھنا ایک مختلف غیر مسئلہ ہے۔ راقم کو بھی اس مسئلہ میں شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ سے اتفاق ہے۔ اس مسئلہ کے بارے میں علامہ ابن حزم نے المحلی میں بڑی تفصیلی بحث کی ہے۔جس میں فریقین کے دلائل ذکر کر کےاسی مؤقف کو راجح قرار دیا ہے۔(راشد)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب