سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(88) ایک مقتدی کے ساتھ امام کس طرف کھڑا ہو؟

  • 21853
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 5985

سوال

(88) ایک مقتدی کے ساتھ امام کس طرف کھڑا ہو؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر ایک مقتدی ہوتوامام کے کس جانب اور کیسے کھڑا ہوگا؟"بادلائل وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سیدہ ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کے پاس تشریف لائے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہمیں دو رکعات نفل نماز اس طرح پڑھائی کہ سیدہ ام حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہا   اور سیدہ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا   کو پیچھے اور مجھے اپنے دائیں طرف کھڑا کیا۔(الصحیحہ:141)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر دو نمازی ہوں تو مقتدی امام کے دائیں جانب'برابر کھڑا ہوگا۔نہ اس سے  آگےکھڑا'نہ پیچھے'اس لیے کہ اگر ایسا کوئی  معاملہ ہوتاتو راوی ضرور بیان کرتا'خصوصاً جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے ساتھ کئی بار نماز اداکی ہے۔

اس بارے میں سیدنا بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث"صحیحین" اور سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی "مسلم" میں موجود ہے۔ جنہیں میں نے "ارواءالغلیل "(533) میں ذکر کیا ہے۔امام بخاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث پر باب قائم کیا ہے۔

"باب يَقُومُ عَنْ يَمِينِ الإِمَامِ بِحِذَائِهِ سَوَاءً إِذَا كَانَا اثْنَيْنِ "

’’جب دو(نمازی)ہوں تو مقتدی کے امام کے دائیں طرف اس کے برابر کھڑا ہونے کا باب۔‘‘

حافظ ابن الحجر رحمۃ اللہ علیہ  نے" الفتح (2/160) " میں فرمایا:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کے قول "سواء" کا مطلب ہے۔ اس سے آگے یا پیچھے کھڑا نہ ہو۔

شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ  کا اشارہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اس قول کی طرف ہے جو بعض طرق میں ہے"فَقُمْتُ إِلَى جَنْبهِ" میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پہلو میں کھڑا ہوا۔ ظاہر ہے۔اس سے مراد برابر ہے اور امام عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ  نے ابن جریج  رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں۔ میں نے عطاء  رحمۃ اللہ علیہ سے کہا:دو بندے نماز پڑھتے وقت کہاں کھڑے ہوں۔؟ فرمایا:امام کے دائیں جانب ۔ میں نے کہا: کیا آپ یہ چاہتے ہو کہ مقتدی امام کے برابر اس طرح کھڑا ہو کہ درمیان میں خالی جگہ نہ ہو؟ تو امام عطاء  رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: جی ہاں۔

موطا (1/104/32)میں صحیح سند سے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے(اسی طرح) مروی ہے۔پس یہ امام کے برابر کھڑے ہونے سے متعلق مذکورہ بالا احادیث کے ساتھ قوی دلیل ہے۔

یہ کہنا کہ مقتدی کا امام سے پیچھے کھڑا ہونا مستحب ہے جیسا کہ بعض فقہی مذاہب میں لکھا ہے تو یہ سنت سے دلیل نہ ہونے کے ساتھ ساتھ مذکورہ احادیث کے ظاہر سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اثر اور جلیل اقدر تابعی امام عطاء بن ابی رباح رحمۃ اللہ علیہ  اور اسی طرح کے دیگر اقوال کے مخالف بھی ہے۔

ایک مومن کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ ان مذاہب کے اقوال کو یہ سوچتے ہوئے ترک کر دے کہ وہ حق کی تلاش میں کوشش کرنے کی وجہ سے ماجورہوں گے۔

(لیکن)اس پر سنت کا اتباع لازم ہے۔ اس لیے کہ بہترین طریقہ سیرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  ہی ہے۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں:

میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   کے پاس آیا تو وہ رات کے آخری پہر نماز ادا کررہے تھے میں آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو آپ نے مجھے اپنے ہاتھ سے پکڑ کر کھنچتے ہوئے اپنے برابر کر دیا۔ پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز کی طرف متوجہ ہوئے تو میں پیچھے ہٹ گیا۔ نماز سے فارغ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے کہا:

"تمھیں کیا ہو گیا ہے۔ میں تمھیں اپنے برابر کر رہا ہوں اور تم پیچھے ہٹ رہے ہو؟"

تو میں نے کہا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا کسی کو یہ زیب ہے کہ وہ آپ کے برابر کھڑا ہو کر نماز ادا کرے۔ جبکہ آپ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  ہو(اور رسالت) آپ کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو میں نے(یہ کہہ کر)خوش کردیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اللہ تعالیٰ سے میرے علم و فہم میں زیادتی کی دعا کی۔"(الصحیحہ :206۔259)

اس حدیث میں ایسا فقہی فائدہ ہے جو آپ کو اکثر یت فقہ میں نہیں ملے گا بلکہ بعض تو اس کی مخالفت کرتے ہیں۔وہ یہ کہ مقتدی کا امام کے دائیں جانب برابر کھڑا ہونا مسنون ہے۔ اس سے آگے نہ اس کے پیچھےبر خلاف ان مذاہب کے کہ جن میں ہے کہ مقتدی امام سے اتنا پیچھے کھڑا ہو کہ اس کے پاؤں کی انگلیاں امام کی ایڑھیوں کے برابر آجائیں۔

اور یہ حدیث مذکور اور سلف کے عمل کے خلاف ہے۔ امام مالک"مؤطا" (1/154) میں نافع سے روایت کیا کہ:

"میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پیچھے ایک نماز میں کھڑا ہوا اور میرے علاوہ اور کوئی نمازی نہ تھا۔تو عبد اللہ نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے برابر کر دیا پھر امام مالک(1/170۔179) نے عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ سے روایت کیا۔ وہ فرماتے ہیں میں دوپہر کے وقت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پاس آیا تو وہ نفل نماز ادا کر رہے تھے ۔ تو میں بھی ان کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو انھوں نے مجھے قریب کرتے ہوئے اپنے دائیں جانب برابر کھڑا کر لیا۔ جب ان کا خادم آگیا میں پیچھے ہوا اور ہم نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے پیچھے صف بنادی۔

اس کی سند بھی صحیح ہے۔

اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مرض وفات کے وقت باہر تشریف لائے اور سیدنا ابو بکر صدیق  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بائیں طرف ان کے برابر بیٹھ گئے۔(مختصر صحیح البخاری:1/326)نظم الفرائد:1/322۔324)

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

نماز کا بیان صفحہ:185

محدث فتویٰ

تبصرے