السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا حیض ونفاس کے دنوں کی کم از کم کوئی تعداد مقرر ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حیض کے حوالہ سے ایک منکر روایت موجود ہے کہ:
’’حیض کے ایام کم از کم تین اور زیادہ دس دن ہیں۔‘‘(سلسلۃ الضیعفہ:1414)
علماء کا حیض کے امام کی کم از کم اور زیادہ سے زیادہ ایام کی تعین میں اختلاف ہے۔جیسا کہ حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ (19/237) نے بیان فرمایا کہ:
اس کے ایام کے کم اور زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ بلکہ جو عورت کی عادت کے مطابق ہے،وہ حیض ہے ۔اگر یہ اندازہ ہوکہ ایک دن سے کم وقت حیض کا خون عورت کو آتا ہے تو وہ حیض شمار ہوگا۔یعنی اگر کسی عورت کی عادت شروع سے ایک دن کم از کم مقرر ہے تو وہ اپنا حیض ایک دن شمار کرے گی اور اگر اس سے زیادہ دن خون آئے تو وہ حیض کا خون شمار نہیں ہوگا بلکہ استخاضہ کاخون کہلائے گا۔
اور جب عورت کو ایک دن سے زیادہ خون آتارہے تو وہ معلوم ہے کہ حیض نہیں ہے۔اس لیے کہ یہ بات شرع اور لغت سے معلوم ہے کہ عورت کبھی طاہرہ ہوتی ہے،کبھی حائضہ۔اس کے طہر اور حیض دونوں کے(الگ الگ) احکامات موجود ہیں۔
امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات کو راجح قراردیاہے جو کہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ہے۔جسے امام ابن حزم نے المحلیٰ(2/203۔200) میں اپنے مخصوص انداز میں تفصیلی بیان کرتے ہوئے مخالفین کا بھی رد کیا ہے۔ تفصیل وہاں ملاحظہ کرلیں۔
نفاس سے متعلق بھی سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک ضعیف مرفوع حدیث مروی ہے کہ:
’’جب نفاس والی عورت کے سات دن گزر جائیں 'پھر وہ طہارت محسوس کرے تو اسے چاہیے کہ غسل کرکے نماز ادا کرے۔‘‘(الضعیفہ۔1233)
اس کی سند اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک ثابت نہیں لیکن اس پر اہل العلم کا عمل ہے۔بلکہ حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ (1/258) نے تو اس پر اجماع نقل کیا ہے۔لیکن یہ بات مناسب(معلوم ہوتی) ہے کہ اس حدیث کے مفہوم کو نہ لیا جائے۔اس لیے کہ اگر عورت سات دن سے کم میں پاک ہوجائے تو غسل کرے'نماز ادا کرے گی۔اس لیے کہ نفاس کی کم از کم کوئی حد مقرر نہیں اور یہی بات محققین کے نزدیک معتمد ہے۔(نظم الفرائد:1/285۔284)
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب