سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(66) جمعہ کے دن غسل کا کیا حکم ہے؟

  • 21831
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 10505

سوال

(66) جمعہ کے دن غسل کا کیا حکم ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جمعہ کے دن غسل کا کیا حکم ہے؟(فتاویٰ الامارات:37)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ  میں دو  طرح کی حدیثیں ہیں۔ایک تو وہ کہ جن سے وجوب ثابت ہوتا ہے۔دوسری احادیث جن سے صرف فضیلت ثابت ہوتی ہے۔بسا اوقات وہ وجوب کی نفی بھی کررہی ہوتی ہے۔جس احادیث سے وجوب ثابت ہوتاہے اس طرح کی بہت ساری احادیث ہیں۔مثلاً:

"غُسْلُ يَوْمِ الجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ"

’’کہ جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ پر واجب ہے۔‘‘

"مَنْ أَتَى الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ"

"جو شخص جمعہ کی نماز کے لیے آئے وہ غسل کرے۔"

"حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ أَنْ يَغْتَسِلَ فِي كُلِّ سَبْعَةِ أَيَّامٍ"

’’ہر مسلمان پر لازم ہے کہ سات دن میں ایک بار غسل کرے۔‘‘

وہ احادیث کہ جن سے افضلیت ثابت ہوتی ہے۔ یہ ہیں۔ایک معروف حدیث کہ جو سنن اور مسانید میں ہے۔

" مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ وَمَنْ اغْتَسَلَ فَالغُسُل أَفْضَلُ "

جوشخص جمعہ کے دن وضو کرے تو یہ کافی ہے۔اچھاہے لیکن جو غسل کرے تو غسل افضل ہے۔

توبعض علماء "فَالغُسُل أَفْضَلُ" سےاستدلال کرتے ہیں کہ غسل واجب ہے۔جبکہ حقیقت میں حدیث اس پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ غسل کا جمعہ کے دن  افضل ہونا یہ صادق آتا ہے ۔مستحب یہ بھی۔سنت موکدہ یہ بھی اور واجب پر بھی یہ سب کے سب "وَمَنْ اغْتَسَلَ فَالغُسُل أَفْضَلُ "کے تحت داخل ہیں بلکہ یہ افضلیت اور زیادہ پختہ اور ثابت ہوگی کہ جب ہم غسل جمعہ کے وجوب کا کہیں گے کہ جس طرح اگر ہم اس غسل کے سنیت کا فتویٰ دیں گے تو افضلیت زیادہ ثابت ہوگی  اس کے مقابلہ میں کہ اگر استحباب کا کہا جائے۔تو کہنا بھی ممکن ہے کہ افضلیت کا حکم تاکیدی حکم آنے سے پہلے کاہے۔یہ بھی معلوم ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کی جوزندگی تھی اس میں کام مشقت والے زیادہ تھے۔آج کل کی طرح کی سہولت ان کو میسر نہ تھیں۔اتنا وافر مقدار میں  پانی بھی نہ تھا کہ جس کے ذریعہ وہ اپنی نظافت اور صفائی برقرار رکھ سکتے۔اس لیے ان کو وجوب کا حکم دیا گیا۔اس لیے  بعض احادیث میں یہ بھی آتا ہے  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  ایک دفعہ جمعہ کےدن مسجد میں داخل ہوئے تو آپ کو بومحسوس ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا:"کاش کہ تم جمعہ کے دن غسل کرلیاکرو۔"تو یہ  گویا وجوب کا تمہیدی حکم ہے۔پھر اس کے بعد دوسری حدیثیں آئیں کہ جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے غسل کا حکم دیا اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو بھی یہی بات سمجھ میں  آئی کہ جب وہ جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔کہ اس دوران حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  داخل ہوئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنا خطبہ کاٹ کر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے لیٹ آنے کا سبب پوچھا تو ا نہوں نے کہا کہ میں نے اذان سنی اور فوراً وضو کرکے مسجد میں آگیا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرمانے لگے صرف وضو جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سناہے:

"مَنْ أَتَى الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ"

’’جو شخص جمعہ کی نماز کے لیے آئے وہ غسل کرے۔‘‘

اس طرح سے  حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کاتمام لوگوں کے سامنے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر اس کاانکار کرنا یہ معلوم ہوتا ہے کہ غسل جمعہ فضیلت والے اعمال میں سے ہے کہ جن کےچھوڑنے پر گناہ نہیں ہوتا۔

بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس قصہ میں اس طرح کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اس سے پہلے اس جمعہ کے دن میں کبھی بھی غسل نہیں کیا۔یہ بات صحیح ہے لیکن دلیل یہ ہےکہ جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فوراً حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ جیسے ہی میں نے اذان سنی وضو کیا۔بلاشبہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے غسل نہیں کیا۔لیکن اس میں دونوں جماعتوں میں سے کسی کے حق میں دلیل نہیں ملتی۔یعنی وہ وجوب غسل کے قائل ہیں اور جو افضلیت کے قائل ہیں۔لیکن واضح دلیل حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے انکار میں ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے اوپر انہوں نے انکار کیا۔

ایک فقہی نکتہ

جن تین حدیثوں سے وجوب غسل ثابت ہورہا ہے وہ تینوں صحیح بخاری ومسلم کی حدیثیں ہیں جبکہ جن احادیث سے جمعہ کے دن کے غسل کی افضلیت ثابت ہورہی ہے،ان میں سے کسی کی سند بھی صحیح نہیں ہے۔ تمام طرق ملانے کے بعد ضعیف سے صحیح کے درجہ کو پہنچی ہے۔

فقہی فائدہ

جب ایک چیز کی دلیل آئے اور وہ اس کے جواز پر دلالت کرے۔دوسری دلیل اس معاملہ کے استحباب پر دلالت کرے۔تو پھر صرف جواز کے حکم کو نہیں لیا جائے گا بلکہ ہم اس کے ساتھ استحباب کا حکم بھی ساتھ ملائیں گے کیونکہ استحباب جواز کے منافی نہیں ہے۔

دوسری مثال

جب ایک حدیث میں ایک چیز مباح ہو۔دوسری حدیث میں اس کے حرمت کا حکم آئے اور ہمیں تاریخ معلوم نہ ہو کہ ہم ایک نص کو مقدم کریں اور دوسری کو مؤخر کریں۔

قاعدہ

جب ایک ممنوع چیز اور ایک مباح آپس میں ایک دوسرے کے معارض ہوں تو ممنوع کو مباح پر مقدم کریں گے۔جس طرح کہ ایک ضعیف سندوالی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:

"إإِنَّ اللهَ تَعَالَى فَرَضَ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيِّعُوهَا ، وَحَدَّ حُدُودًا فَلَا تَعْتَدُوهَا ، وَحَرَّمَ أَشْيَاءَ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا ، وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ غَيْرِ نِسْيَانٍ رَحْمَةً لَكُمْ ، فَلَا تَبْحَثُوا عَنْهَا"

’’بے شک اللہ نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں تم ان کو ضائع مت کرو اور کچھ حدیں مقرر کی ہیں اور کچھ سے خاموش رہا تم پر رحمت کرتے ہوئے تو تم ان کے بارے میں مت پوچھو۔‘‘

شروع اسلام میں جن احکام کے بیان سے خاموشی اختیار کی گئی تو ان کے بارے میں آج بھی اسلام خاموش ہے۔یعنی حلال وحرام ہونے کے لحاظ سے مثلاً جیسے شراب ہے اور دوسری چیزیں کہ جب ان کو حرام کرنے والی نصوص آئیں تو علماء نے بھی ان پر بنا کی۔

اگر ہم اسی قاعدہ کو جمعہ کے دن کے غسل پر لگائیں تو ہمیں یہ چیزیں  معلوم ہوتی ہیں کہ شروع اسلام میں غسل کے حکم کے بارے میں بعض احادیث میں"لو اغتسلتم يوم الجمعة"اور بعض میں"وَمَنْ اغْتَسَلَ فَالغُسُل أَفْضَلُ " کہ جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صفائی اور طہارت پر ابھارنے والی بات ہے۔پھر اس کے بعد دوسری احادیث آئیں کہ جن میں ہے"فلیغتسل"حق واجب" ان الفاظ کے ساتھ ایک زائد چیز ثابت ہونے لگی۔حضرت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ  کا ایک رسالہ ہے"نخبتہ الفکر"کے نام سے اس میں لکھتے ہیں کہ حدیث مقبول کی دو قسمیں ہیں"حسن اور صحیح"جب یہ دونوں طرح کی حدیثیں ایک دوسرے کے مخالف  آئیں تو ہم ان چند ایک چیزوں کا پیچھا کریں گے۔پہلے ہم اس طرح کی دو حدیثوں کے درمیان تطبیق دیں گے۔تطبیق تمام صورتوں میں سے کسی ایک کے ذریعہ دو متعارض حدیثوں کے درمیان تطبیق کی شکلیں سو سے زائد ہیں۔"دوسرا" کہ جمع کی جب کوئی شکل ممکن ہو تو پھر ناسخ اور منسوخ کا اعتبار کیاجائے گا۔"تیسرا"جب بحث کرنے والے بندے کے لیے ناسخ اور منسوخ واضح نہ ہوتو ثبوت کے لحاظ ترجیح دی جائے گی۔

مثلاً:اگر ایک صحیح اور ایک حسن حدیث ایک دوسرے کے مخالف ہوتطبیق ممکن نہ ہو۔ناسخ ومنسوخ کا پتہ نہ چل سکے توپھر حدیث صحیح کو حسن پر ترجیح دیں گے اورجب ایک حدیث صحیح ہو لیکن غریب ہو جبکہ دوسری حدیث صحیح مشہور ہوتو  حدیث صحیح مشہور کو صحیح غریب پر ترجیح دیں گے۔"چوتھی"جب صحت کے لحاظ سے دونوں حدیثیں برابر درجہ کی ہوں تواور تطبیق ممکن نہ ہو تو اس میں توقف اختیار کیا جائے گا۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

طہارت کے مسائل صفحہ:160

محدث فتویٰ

تبصرے