السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
"لايمس القرآن الا طاهر"اس حدیث کا کیامعنی ہے؟(فتویٰ الامارات:77)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ حدیث سلسلہ احادیث صحیحہ میں تخریج کے ساتھ موجود ہے۔یہ حدیث تمام طرق کے مجموعہ کے ساتھ صحیح ہے۔
صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کی ایک جماعت کے پاس آئے ان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے۔ایک دوسری روایت میں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔
"فانسل أبو هريرة من المجلس، ثم جاء و رأسه يقطر ماء، فسأله رسول الله صلى الله عليه و سلم عن سبب انسلاله فقال: يا رسول الله إني كنت جنبا - كأنه يقصد أن يقول: إني استهجنت أن أجلس معك أو أن أصافحك أنا جنب - فقال صلى الله عليه و سلم: سبحان الله أن المؤمن لا ينجس"
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجلس سے کھسک کر چلے گئے پھر دوبارہ تو ان کے سر سے پانی کے قطرے گررہے تھے۔توان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھسکنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا:اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں جنبی تھا گویا کہ وہ یہ کہنا چاہ رہاتھا میں ڈر گیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھوں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مصافحہ کروں جبکہ میں جنبی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ 'مومن پلید نہیں ہوتا۔‘‘
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان:
" لا يمس القرآن إلا طاهر" طاہرسے مراد مومن ہے،چاہے اسے حدث اکبر ہو یا اصغر۔کوئی بھی یہاں نص صریح اور صحیح موجود نہیں ہے کہ جس سے یہ معلوم ہو کہ بغیر وضو کے قرآن کو چھونا جائز نہیں ہے،چاہے حدث اصغر ہویا حدث اکبرہو۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب