سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(59) کیا خون سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

  • 21824
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 852

سوال

(59) کیا خون سے وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا خون سے وضوٹوٹ جاتاہے؟(فتاویٰ المدینہ:111)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں فقہاء کا اختلاف ہے۔بعض کہتے ہیں کہ خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے'چاہے خون تھوڑا ہو یا زیادہ اور یہ احناف کا مؤقف ہے۔

بعض کا موقف اس کےبرخلاف ہے۔یعنی خون ناقض وضو نہیں ہے ۔تھوڑا ہوچاہے زیادہ۔یہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ  کا موقف ہے۔

اور بعض نے درمیانہ موقف اختیار کیا ہے کہ اگر خون زیادہ ہوگا تو ناقض وضو ہوگا،اگرخون کم ہوگا تو ناقض وضو نہیں ہوگا۔ہمارا خیال یہ ہے کہ خون مطلق طور پر ناقض وضو نہیں ہے۔چاہے تھوڑا ہویا زیادہ ہو۔ہماری دلیل کہ براءۃ اصلیہ۔یعنی ہر چیز اپنے اصل پر ہوگی کہ جب تک شرع سے کوئی نص نہ آجائے۔دوسری بات"سنن ابی داود"وغیرہ۔

حضرت جابر بن عبداللہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث ہے۔فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ ایک غزوہ کیا۔ہم نے ایک مشرک عورت کے ساتھ جماع کیا کہ جس کا شوہر غائب تھا۔جب اس عورت کاشوہر آیا اور اسے یہ خبر ملی تواس نے قسم کھائی کہ میں گھر نہیں آؤں گا جب تک بدلہ نہ لے لوں۔وہ قوم کے پیچھے تلاش میں نکلا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کو ایک وادی میں شام ہوچکی تھی۔توانہوں نے ایک وادی میں پڑاؤ ڈالا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نےفرمایا کہ آج رات پہرہ کون دے گا؟تو انصار کے دو نوجوان کھڑے ہوئے کہنے لگے کہ ہم پہرہ دیں گے'اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تم گھاٹی کے منہ پر کھڑے ہوجاؤ تو وہ دونوں گئے۔انہوں نےطے کیا کہ باری باری پہرہ دی گے ایک کھڑا ہوگیا دوسرا پہرہ دینے لگا۔ساتھ نماز شروع کردی۔مشرک قوم کا پیچھا کرتے ہوئے وہاں پہنچ گیا۔مشرک نے دیکھا کہ پہرہ دینے والے نے نماز شروع کی تو اس نے اپنے ترکش سے تیر نکالا اور کمان میں رکھ کر اس صحابی کی طرف پھینکا تو وہ صحابی کو پنڈلی میں جالگا۔تو وہ نوجوان گر گیا لیکن نماز جاری رکھی۔پھر اس مشرک نے دوسری اور تیسری بار تیر پھینکا ہر بار پنڈلی میں مارتا رہا لیکن صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے نماز جاری رکھی۔اس قصہ میں محل شاہد یہ ہے کہ یہاں تک کہ دورکعتیں نماز پڑھ لی،پھر اپنے ساتھی کو بیدارکیا۔جب اس نے اس کے زخم دیکھے تو اسے یہ معاملہ بڑا خطرناک لگا۔حضرت جریج رضی اللہ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں ایسی سورت پڑھ رہا تھاکہ اگر مجھے یہ ڈرنہ ہوتا کہ میں اس سوراخ کی وجہ سے ضائع نہ ہوجاؤں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مجھے اپنے پہرے پر مقرر کیا تھا۔

اس نوجوان کا موقف یہ ہوتا کہ خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے ۔تو یہ شروع میں ہی نماز توڑدیتا۔تو یہ ایک عملی دلیل ہے کہ بے شک صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہی چیز سیکھی ہے کہ خون ناقض وضو  نہیں ہے۔

لیکن اس موقف کے جو مخالفین ہیں وہ اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو اس چیز کی اطلاع نہیں ملی تھی جو واقعہ صحابی  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے ساتھ پیش آیا۔

تو لہذا یہ دلیل نہیں بن سکتا کیونکہ موقوف ہے۔

اس طرح کا جواب یہ لوگ کئی ایک اختلافی مسائل میں دیتے ہیں لیکن لا علمی کی حد ہے کہ اس طرح کے واقعہ سے حجت نہ پکڑی جائے کہ ایسا واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور میں پیش آیا اور آپ کو اس کی اطلاع نہ ہوئی ہو۔

کیونکہ اگر توآ پ کو خبر ہوجاتی اور آپ اس کو برقرار رکھتے تو پھر تو یہ حجت ہوتا۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کی خبر اپنے نبی کو دی ہوگی۔کیونکہ اس میں کوئی چیز شریعت کے خلاف ہوتی تو ضرور آسمان سے اس کا حکم نازل ہوتا۔ایک اثرحضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ  کی طرف منسوب ہے کہ انہوں نے فرمایا:

"ما زال المسلِمون يصلُّون في جراحاتِهم"

’’یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھی زخموں میں نماز پڑھتے رہے۔‘‘

علماء کے صحیح قول کے مطابق یہی ہے کہ خون مطلق طور پر ناقض وضو نہیں ہے۔

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

طہارت کے مسائل صفحہ:155

محدث فتویٰ

تبصرے