سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(34) کیا اکثریت کو اجماع معتبر کہا جاتا ہے؟

  • 21799
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1415

سوال

(34) کیا اکثریت کو اجماع معتبر کہا جاتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا اکثریت کو اجماع معتبر کہا جاتا ہے؟(فتاویٰ الامارات:55)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

علماء اصول کے نزدیک اکثریت کو اجماع اعتبار نہیں کہا جاتا۔اجماع کی بہت ساری تعریفات ہیں۔کوئی اجماع امت کہتا ہے،کوئی علماء کے اجماع کو اجماع کہتا ہے اور کوئی صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین  کے اجماع کومعتبر سمجھتا ہے۔اس بارے میں بہت طویل کلام ہے۔اس پر حضرت امام شوکانی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی کتاب"ارشاد الفحول" میں تذکرہ کیا ہے۔اسی طرح صدیق حسن خان نے بھی اپنی کتاب"تحصیل الصامول من علم الاصول" میں اس پر بحث کی ہے۔مسائل پر اس طرح اجماع کا وقوع پذیر ہونا تو الگ بات ہے لیکن وقوع پذیر ہونے والے اجماع کامنقول ہونا ناممکن ہے۔ایک زمانے کے علماء کا اجماع کرنا کسی مسئلہ پر کیسے ممکن ہے ان کا ثابت ہونا۔اگراجماع ثابت ہوجائے تو ان علماء سے رابطہ کی طاقت کون رکھتا ہے۔اس معاملہ کا وقوع پذیر ہونا ناممکنات میں سے ہے۔خصوصاً اس مذکورہ اجماع کے جو شخص مخالف ہواس پر کفر کافتویٰ لگاتے ہیں۔

لیکن حقیقی طور پر جس شخص کے خلاف کفر کا فتویٰ لگایا جاتا ہے اس کے بارے میں یہ کہاجاتا ہے کہ ایسا شخص کہ جو ایسےیقینی اجماع کی مخالفت کرے کہ جوعلماء اصول کے نزدیک معتبر اجماع ہو کیونکہ ایسے اجماع کے مخالف شخص نے گویا اجماع کے ذریعے سے ثابت کردہ ایک شرعی حکم سے عدولی کی ہے۔تو یہ چیز حجت قائم ہونے کےبعد اس شخص کے تکفیر کو مستلزم ہے۔اس طرح کے یقینی قسم کااجماع اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں داخل ہوتاہے:

﴿وَمَن يُشاقِقِ الرَّسولَ مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع غَيرَ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ وَساءَت مَصيرًا ﴿١١٥﴾... سورة النساء

’’جس نے بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی مخالفت کی،اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت واضح ہوچکی تھی اور مومنوں کے راستہ کے علاوہ کسی اور راستے کی وہ پیروی کرتا ہے۔ہم اسے پھیردیتے ہیں کہ جس طرف بھی وہ پھرتا ہے اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے اور جہنم بہت بُرا ٹھکانہ ہے۔‘‘

 ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب

فتاویٰ البانیہ

علم استدلال نقلیہ اور اصول فقہ کے مسائل صفحہ:126

محدث فتویٰ

تبصرے