السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
تبلیغی جماعت کامنہج کیاہے؟اور کیا کسی طالب علم کے لیے جائز ہے یاکسی اور کے لیے کہ وہ ان کے ساتھ تبلیغ میں نکل جائیں؟(فتاویٰ :المدینہ:8)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تبلیغی جماعت کا منہج کتاب وسنت اور سلف صالحین والا منہج نہیں ہے۔جب معاملہ اسی طرح ہے تو ان کے ساتھ نکلنا جائز نہیں ہے۔کیونکہ ہمارے اس منہج کی بنیاد سلف صالحین کے منہج کے مخالف ہے۔اللہ کی راہ میں دین کی دعوت کاکام کرنے کے لیے ایک عالم نکلتا ہے اور جو اس علم کے ساتھ نکلیں توان کو چاہیے کہ اپنے گھروں میں رہیں اور اپنی مساجد میں بیٹھ کر علم دین حاصل کریں۔یہاں تک کہ ان میں سے علماء تیار ہوجائیں۔وہ اپنے معاشرے میں دین کے کام کے لیے نکل کھڑے ہوں۔جب معاملہ اس طرح سے چل رہا ہو تو دین کے طالب علم پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو دعوت دے کہ وہ اپنے گھروں میں ہی کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کریں اور لوگوں کو اس کی دعوت دیں۔تبلیغی جماعت والے کتاب وسنت کی طرف دعوت نہیں دیتے بلکہ وہ فرقہ واریت کی دعوت دیتے ہیں۔تو اس لحاظ سے ان کی جماعت اخوان المسلمون کی جماعت کے زیادہ مشابہ ہے۔
دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ان کی دعوت کتاب وسنت پر قائم ہے لیکن یہ صرف باتیں ہیں۔وہ ایک عقیدہ پر بھی آپس میں جمع نہیں ہوتے۔ان میں ماتریدی عقیدہ والے بھی ہیں۔اسی طرح سے اشعری اور صوفی بھی شامل ہیں کہ جن کو کائی مذہب ہی نہیں ہے،کیونکہ ان کے دعوت کی بنیاد ہے کہ یکجاہونا،لوگوں کو جمع کرنا سب کو ایک طرح لباس پہنانا۔حقیقت یہ ہے کہ ان کی کوئی ثقافت نہیں ہے۔ان کو آدھی صدی سے زیادہ عرصہ ہوچکاہے آج تک ان میں کوئی عالم دین ظاہر نہیں ہوا۔
ہم کہتے ہیں کہ ثقافت ہر ایک کی اپنی اپنی صحیح لیکن عقیدہ توحیدپر سب کو جمع کرو۔کیونکہ عقیدہ توحید ہی ایک ایسی چیز ہے کہ جس پر لوگ بغیر اختلاف کیے جمع ہوسکتے ہیں۔
تبلیغی جماعت والے اس زمانے کے صوفی ہیں'یہ صرف اخلاقیات کی دعوت دیتے ہیں۔عوام کے عقیدے کی اصلاح نہیں کرتے۔وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے لوگ منتشر ہوجائیں گے۔اس لیے اس کو ساکن رہنے دیتےہیں'حرکت نہیں دیتے۔جناب سعدالحصین کا تبلیغی جماعت کے امام کے ساتھ کہ جو ہندوستان یا پاکستان میں رہتے ہیں ان کے ساتھ تحریری طور پر مناظرہ ہواہے کہ جس سے یہ واضح ہوگیا کہ یہ لوگ وسیلہ کے قائل ہیں'اسی طرح غیر اللہ سے مدد طلب کرنے کے قائل ہیں اور بھی اس طرح کی غیر شرعی چیزیں ان کے عقائد کاجزلاینفک بنی ہوئی ہیں۔یہ لوگ اپنی جماعت میں شامل ہونے والے افراد سے چار چیزوں پہ بیعت لیتے ہیں۔ان میں ایک یہ ہے کہ نقشبندی طریق پر بیعت لیتے ہیں۔ہر تبلیغی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان چیزوں پہ بنیادی طور پر بیعت کرے۔بسااوقات لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ جی ان کی جماعتی کوششوں سے اتنے اتنے لوگ مسلمان ہوگئے ہیں یا فلاں جگہ پر اتنے لوگ دنیا چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع کرچکے ہیں۔تو کیا یہ چیزیں کافی نہیں ہیں،ان کے سچا ہونے کے لیے اورہمارے ان کے ساتھ ان کے لیے جواز کے طور پر؟
ہم یہ جواب دیتے ہیں کہ اس طرح کی باتیں ہم بھی بہت زیادہ سنتے رہتے ہیں لیکن ہم تو ایسے بہت سارے لوگوں کو جانتے ہیں کہ جو ذاتی طورپر صوفی ذہن کے لوگ ہوتے ہیں۔یہاں ایک شخص اس طرح کاموجود ہے کہ جو سنت میں سے کچھ بھی نہیں جانتا'اس کاعقیدہ بھی فاسد ہے'باطل طریقے سے لوگوں کے مال کھاتاہے لیکن اس کے باوجود بہت سارے فاسق لوگ اس کے ہاتھ پر مسلمان ہوتے ہیں۔کوئی بھی جماعت کہ جولوگوں کو خیر کی دعوت دیتی ہو اس کےلیے ضروری ہےکہ ان کے پاس کوئی اسوہ ہویا قدوۃ ہونا چاہیے کہ جس کے منہج پریہ لوگ چلیں لیکن ہم ان کی طرف بنظر غائر دیکھتے ہیں کہ یہ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں؟
کیایہ لوگ کتاب اللہ اور سنت رسول اور سلف صالحین کے عقیدہ کی دعوت دیتے ہیں؟کسی مذہب کے بارے میں عصبیت رکھے بغیر اور سنت کے اتباع کی دعوت دیتے ہیں جہاں بھی ہوں اور جس جماعت کے ساتھ ہوں؟
تبلیغی جماعت کا کوئی عمل منہج نہیں ہے بلکہ ان کا منہج وہی ہے کہ جس جگہ پہ یہ لوگ رہتے ہیں'وہیں کی چیز اپناتے ہیں۔جیسا دیس ویسا بھیس۔
ھذا ما عندی والله اعلم بالصواب