السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محترم میرا سوال یہ ہے کہ اگر کہیں قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں کوئی تضاد پایا جائے تو افضل کس کو سمجھا جائے ، یعنی کس حکم کو ساقط کیا جائے اور کس حکم کو مانا جائے؟ الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤالوعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته! الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!قرآن اور حدیث دونوں ایک ہی نور کی دو کرنیں ہیں،قرآن وحی جلی ہے تو حدیث وحی خفی ہے۔آپ کی ہر حدیث وحی اورمنزل من اللہ ہے:ارشاد باری تعالی ہے: ’’وما ينطق عن الهوی ان هو الا وحی يوحی‘‘وہ اپنی مرضی سے کوئی بات نہیں کرتے۔ وہ تو سراسر وحی ہوتی ہے۔ قرآن مجید بھی پہلے حدیث ہے پھر قرآن ہے،کیونکہ قرآن کی قرآنیت کے بارے میں ہمیں آپ نے ہی بتلایا ہے۔قرآن اور صحیح حدیث دونوں پر عمل کرنا ہر مسلمان پر فرض اور واجب ہے۔ دوسری باتآپ یہ ذہن نشین کر لیں کہ صحیح حدیث اور قرآن مجید میں کہیں بھی تضاد نہیں ہے،ممکن ہے ایک بات ہماری عقل میں نہ آرہی ہو اور ہم اس کو تضاد پر محمول کررہے ہوں،حالانکہ اس میں تضاد نہ ہو۔ اگر کہیں پر نصوص متعارض ہوں تو اس تعارض کو دور کرنے کے لئے محدثین نے متعدد طریقے بتائے ہیں ،جن کی تفصیلات اصول حدیث کی کتب میں موجود ہیں۔ قرآن اور حدیث کے درمیان فرق کرنا ایک حرام عمل ہے۔ هذا ما عندي والله اعلم بالصوابفتاویٰ علمائے حدیثکتاب الصلاۃجلد 1 |