سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(62) مریض کا مسکین کو کھانا کھلانا

  • 21750
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1204

سوال

(62) مریض کا مسکین کو کھانا کھلانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میری دادی تقریبا اسی سال کی ہے جو میرے ساتھ ہی رہتی ہے جب میری عمر ایک ماہ تھی اس وقت میرے والد صاحب وفات پا گئے تھے، الحمدللہ پھر میں بڑا ہوا اور میری شادی ہو گئی اب میں دونوں خاندانوں کی کفالت کرتا ہوں، اپنے گھر والوں کی اور والدہ اور دادی کی۔ تقدیر الٰہی سے میری دادی ایک مرض میں مبتلا ہوئی جس کے باعث اس کا جسم کمزور ہو گیا اور اب اس کی حالت یہ ہے کہ وہ روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ میں نے اس کی نماز کے دوران بعض ایسے الفاظ سنے ہیں جنہیں پہلے وقتوں کے لوگ عادتا اپنی نمازوں میں پڑھا کرتے تھے۔ چنانچہ میں نے اس کو بعض دینی امور اور نماز سکھانے کی کوشش کی مگر وہ نماز میں اپنی حالت درست نہیں کر سکی اب جب کہ میں اس کو نصیحت کرتا ہوا تھک چکا ہوں، آپ سے رجوع کر رہا ہوں۔

اور کیا اس کے روزوں کے بدلہ میں ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلاؤں یا رمضان المبارک کے ختم ہونے کے بعد ایک ہی مرتبہ مسکینوں کو کھانا کھلا دون۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس عمر رسیدہ خاتون کے لئے اگر روزہ رکھنا باعث تکلیف ہو یا وہ بڑھاپے یا مرض کے باعث دن بھر روزہ مکمل کرنے کی طاقت نہیں رکھتی تو اس کے ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے اور تمام دنوں کا کھانا رمضان المبارک کی ابتدا ہی میں کھلا دینا درست ہے اور مہینہ کے آخر تک اس کو موخر کر لینا بھی جائز ہے اور اس کو متفرق مساکین یا مستحق گھرانوں میں تقسیم کر دینا بھی درست ہو گا۔ کفارہ کی مقدار کسی ملک کی عمومی خوراک کا نصف صاع (قریبا سوا کلو گرام) ہو گا جہاں تک اس کی یہ حالت ہے کہ وہ نماز اچھے طریقے سے نہیں پڑھتی اور وہ اپنی ان عادات کو تبدیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی جن پر وہ قراءت یا افعال نماز کے سلسلہ میں قائم تھی تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ اس لئے کہ وہ عمر کے اس حصے میں پہنچ چکی ہے کہ وہ نہیں سمجھتی کہ اس سے کیا کہا جا رہا ہے اس کے باوجود آپ کو چاہئے کہ آپ مسلسل اس امید پر اس کو تعلیم دیتے رہیں اور مسائل سمجھاتے رہیں کہ شاید کسی وقت اس کی حالت بہتر ہو جائے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ الصیام

صفحہ:118

محدث فتویٰ

تبصرے