سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(47) قیام اللیل میں دعائے قنوت

  • 21735
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 873

سوال

(47) قیام اللیل میں دعائے قنوت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

رمضان المبارک کے قیام کے دوران کون سی دعائیں قنوت کے طور پر پڑھی جائیں اور کیا نماز وتر میں دعائے قنوت پڑھنا لازم ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

وتروں میں دعائے قنوت پڑھنا سنت ہے مگر لازم نہیں ہے بلکہ اس پر ہمیشگی کرنے کو اچھا نہیں سمجھا گیا تاکہ اس سے عام لوگ اس کو واجب نہ سمجھ لیں۔ یہ دعائے قنوت رمضان المبارک میں اور سال کے دوسرے مہینون میں وتر کے دوران صرف سنت کا درجہ رکھتی ہے۔ بعض علماء اس کو رمضان المبارک کے صرف آخری نصف میں ہی جائز سمجھتے ہیں اور بعض کا خیال ہے کہ اس کو ہر روز نماز فجر میں پڑھنا چاہیے اور صحیح یہ ہے کہ اس کو مصیبتوں کے دوران ہی نماز فجر میں پڑھنا چاہیے۔ حضرت حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ بعض دعائیں اس سلسلہ میں محفوظ کی گئی ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بعض کلمات سکھائے جن کو میں وتر میں دعائے قنوت کے طور پر پڑھتا ہوں، جو یہ ہیں۔

(اللهم اهدني فيمن هديت , وعافني فيمن عافيت , وتولني فيمن توليت , وبارك لي فيما اعطيت , وقني شر ما قضيت إنك تقضي ولا يقضى عليك , وإنه لا يذل من واليت , تباركت ربنا وتعاليت)

’’اے اللہ مجھے ان لوگوں کے زمرہ میں ہدایت عطا فرما جن کو تو نے ہدایت عطا فرمائی ہے اور مجھے عافیت عطا فرما ان لوگوں کی جماعت میں جن کو تو نے عافیت میں رکھا اور میری سرپرستی فرما ان لوگوں میں جن کی تو نے سرپرستی فرمائی اور جو کچھ تو نے مجھے عطا فرمایا اس میں برکت عطا فرما۔ اور مجھے ہر اس برائی سے بچا جس کو تو نے مقدر کیا۔ بےشک تو حق کے ساتھ فیصلہ فرمانے والا ہے اور تجھ پر کسی کا حکم نہیں چلتا۔ وہ شخص ذلیل نہیں ہو سکتا جس کو تو دوست رکھے۔ اے ہمارے رب تو برکت والا اور بلند ہے۔‘‘

اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز وتر کے آخر میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے:

(اللهم إني اعوذ برضاك من سخطك واعوذ بمعافاتك من عقوبتك واعوذ بك منك لا احصي ثناء عليك انت كما اثنيت على نفسك)

’’اے اللہ میں تیری رضا کے ساتھ تیری ناراضگی سے پناہ چاہتا ہوں اور تیری معافی کے ساتھ تیرے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں اور میں تیری ذات کی رحمت والی صفات کے ساتھ تیری (غضب والی صفات سے) پناہ چاہتا ہوں۔ میں تیری تعریف بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتا تو ایسا ہی ہے جس طرح تو نے اپنی تعریف خود فرمائی ہے۔‘‘

ان دونوں دعاؤں کو پانچ محدثین (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ اور امام احمد) نے روایت کیا ہے اور کوئی حرج نہیں اگر دنیا اور آخرت کی بھلائی والی بعض دوسری منقول دعائیں بھی ان کے ساتھ ملا لی جائیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ الصیام

صفحہ:104

محدث فتویٰ

تبصرے